PART 02 نا مرد

Story Info
Groom fails to satisfy bride on first night
3.3k words
3.13
1.5k
1
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

ارم کے جذبات عروج پر تھے۔ اس کی سانسوں کی گرمی عدنان کو اپنے چہرے پر بخوبی محسوس ہو رہی تھی لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ لنڈ اس کا اب بھی سو ہی رہا ہے۔ عدنان کیلئے یہ سب سمجھ سے باہر تھا کیونکہ پورن فلمیں دیکھتے ہوئے ایک سیکنڈ میں اس کا لنڈ لوہے کے راڈ کی طرح سخت ہو جاتا تھا۔ یہ بات تو وہ بھی مانتا تھا کہ اس کی مٹھ کا دورانیہ بہت کم ہو گیا تھا لیکن لنڈ نہ کھڑے ہونے والی بات اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ جب اس نے مٹھ مارنا شروع کیا تھا تب وہ سکول میں ہوتا تھا اور بعض اوقات دس دس منٹ تک مٹھ مارتا رہتا تھا جبکہ اب بمشکل تیس سیکنڈ ہی مٹھ مار پاتا تھا کہ منی نکل جاتی تھی۔ جو بھی تھا لیکن لنڈ کھڑا نہ ہونا یہ بات انتہائی قابل تشویش تھی۔ خود عدنان بھی وجہ نہ جان پایا تھا ابھی تک۔ ایسے میں ارم کی مایوسی قدرتی تھی۔ وہ تو فل موڈ میں تھی۔ سہاگ رات کی مایوسی کے بعد بھی یہ اس کی ہی ہمت تھی کہ پھر سے دل میں امید سجائے عدنان سے ننگی لپٹ کر اس کے ہونٹ، گال اور گردن پر بوسے دئیے جا رہی تھی۔ خود تو اس نے پہلے ہی لباس سے بے نیازی اختیار کر لی تھی لیکن عدنان کے کپڑے بدستور اس کے جسم پر تھے۔ جذبات کی حدت ذرا اور تیز ہوئی تو ارم نے دوران بوس و کنار ہی اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دئیے۔ شرٹ اتاری، پھر پتلون اتاری اور پھر انڈر وئیر اتارا۔ ارم کی صاف شفاف گوری چٹی چکنی پھدی اگرچہ مکمل تر تھی لیکن گیلی ہونے کے باوجود اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے پھدی میں آگ لگی ہو۔ بلاآخر عدنان کا انڈر وئیر اترتے ہی ارم کے ارمانوں پر ایک مرتبہ پھر سے اوس پڑ گئی کیونکہ لنڈ کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی مردہ کیچوا۔ ارم نے بڑی چاہت سے انڈروئیر اترتے ہی ہاتھ نیچے کر کے عدنان کا لنڈ پکڑا تھا اس امید پر کہ آج یہ لنڈ اس کی چوت میں لگی آگ ٹھنڈی کرے گا لیکن لٹکا ہوا چھوٹا سا لنڈ پکڑ کر اسے اس حد تک مایوسی ہوئی کہ یکدم عدنان سے دور ہو گئی۔ ایک نظر اس کے لنڈ پر ڈالی اور بیڈ پر عدنان سے منہ پھیر کی لیٹ گئی۔ مایوسی تو عدنان کو بھی ہوئی تھی اور اس نے ہاتھ بڑھا کر ارم کا ہاتھ تھامے رکھنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ارم نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔ عدنان بیچارہ ننگا کھڑا اپنی بیوی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ ارم کی گانڈ پر نظریں گاڑ کر ایک ہاتھ سے لنڈ سہلانے لگا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ عدنان نے دل میں سوچا کہ اب اسے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ نا مرد ہے تاکہ موجودہ صورتحال کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے وہ ارم کے پاس بیٹھا اور نہایت آہستگی سے ارم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ ارم نے منہ پھیر کر عدنان کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بھیگی ہوئی حسین آنکھیں اس قدر خوبصورت اور پرکشش لگ رہی تھیں کہ عدنان کو یقین تھا کہ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اتنی خوبصورت ننگی لڑکی کو بھیگی آنکھوں کے ساتھ دیکھ کر یقیناً اس کا لنڈ کھڑا ہو جاتا اور لمحات خوشگوار ہو جاتے۔ بے اختیار ایک سرد آہ عدنان کے منہ سے خارج ہوئی اور اس نے ارم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر رومانوی انداز میں ہلکے ہلکے دبانا شروع کر دیا۔ عدنان کیلئے ارم کے سامنے اپنی نا مردی کا اعتراف نہایت مشکل کام تھا۔ اسی لئے جب وہ ارم کو بتا رہا تھا کہ وہ اس کے ازدواجی حقوق پورے کرنے کے قابل نہیں ہے تو اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ عدنان نے ارم کو کھلے لفظوں میں بتا دیا کہ اگر وہ علیحدگی چاہتی ہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں اور اگر کسی اور طرح سے عدنان اس کی کوئی خواہش پوری کر سکے تو عدنان اس کے لئے بھی تیار ہے۔ ارم نے بھیگی آنکھوں اور بھاری دل کے ساتھ عدنان کی باتیں سنیں۔ فیصلہ تو اسے ہی کرنا تھا۔ عدنان سے علیحدگی اختیار کر لیتی تو اسے بہت سے دیگر خدشات لاحق ہونے کا اندیشہ تھا۔ ظاہر ہے علیحدگی کیلئے طلاق ضروری تھی اور طلاق یافتہ عورت کی دوسری شادی نہ صرف مشکل ہے بلکہ اگر ہو بھی جائے تو رشتے شادی شدہ افراد کے ملتے ہیں یا پھر رنڈوے مردوں کے۔ اور پھر ہر کسی کو اس بات پر یقین بھی نہیں آئے گا کہ وہ شادی کے باوجود کنواری ہے۔ ارم نے طلاق کا خیال فوراً دل سے نکال دیا۔ جو بھی تھا اسے عدنان کے ساتھ ہی رہنا تھا اور مسلے کا حل تلاش کرنا تھا۔ بے شک عدنان کے بقول وہ نا مرد تھا اور ہر ممکن کوشش کے باوجود اپنا لنڈ کھڑا کرنے میں ناکام رہا تھا لیکن اس کے باوجود ارم پر امید تھی کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی علاج ڈھونڈ نکالے گی۔ عدنان کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دئیے اس نے بھرپور اپنائیت سے اسے جواب دیا تھا کہ وہ ہر گز عدنان سے علیحدگی اختیار نہیں کرے گی اور اس کا جینا مرنا عدنان کے ساتھ ہے۔ یوں جنسی تعلق نہ ہونے کے باوجود عدنان اور ارم کے درمیان محبت کا رشتہ استوار ہو گیا۔ اگلا پورا مہینہ وہ دونوں مل کر عدنان کے لنڈ کو کھڑا کرنے کے مختلف طریقے تلاش کرتے اور انہیں آزماتے رہے۔ ارم نے عدنان کے لنڈ کی روز سانڈے کے تیل سے مالش کرنے کو معمول بنا لیا لیکن اس سے پہلے وہ بنیادی طریقہ اختیار کرنا نہ بھولی تھی یعنی بلو جاب۔ لنڈ کو منہ میں لے کر ایسے چوستی کہ جیسے لنڈ نہ ہو بلکہ لالی پاپ ہو۔ اتنے والہانہ انداز میں لنڈ چوسنے کا عدنان کے لنڈ پر تو کوئی اثر نہ ہوا لیکن ارم کو لنڈ چوسنے میں بے انتہا مہارت حاصل ہو گئی۔ یہ بات البتہ ضرور تھی کہ یہ مہارت محض سوئے ہوئے لنڈ تک ہی محدود تھی۔ سب طریقے آزمانے کے بعد بھی سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس دوران عدنان نے ارم کو بارہا آفر کی ارم چاہے تو وہ اسکی پھدی میں لنڈ کی بجائے کوئی اور چیز ڈال کر اس کی پیاس بجھا سکتا ہے لیکن ارم کی خواہش تھی کہ اس کا کنواراپن لنڈ سے ہی ختم ہو۔ اسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے اس نے اتنا صبر کیا تھا ورنہ اگر کسی مصنوعی چیز سے ہی اپنی سیل توڑنی ہوتی تو وہ شادی کا انتظار ہی کیوں کرتی۔ یہ کام تو وہ شادی سے پہلے بھی کر سکتی تھی۔ اس کی اپنی سہیلیاں کالج میں بڑے فخر سے بتاتی تھی کہ آج انہوں نے اپنی پھدی میں کیا لیا۔ زیادہ تر لڑکیاں لمبی سبزیوں سے ہی پھدی کی آگ ٹھنڈی کرتی تھیں۔ جو ذیادہ امیر لڑکیاں تھیں وہ اس بات پر غرور کرتی تھیں کہ ان کے پاس ربڑ اور سیلیکون کے لنڈ تھے جو وائبریٹ بھی ہوتے تھے۔ ارم کو بھی اس کی سہیلیوں نے بارہا اکسایا تھا کہ وہ اپنی پھدی میں کوئی نہ کوئی چیز ڈال کر اپنی سیل توڑے اور مزے لے لیکن یہ ارم کی مضبوط قوت خود ارادی تھی جس نے ارم کو اپنے فیصلے پر قائم رکھا تھا۔ شادی سے پہلے کبھی کبھار نہاتے ہوئے وہ صابن پھدی پر رگڑتی تو دل کرتا کہ درمیانی انگلی پھدی کے اندر ڈال کر دیکھے تو سہی کہ آخر کتنا مزہ آتا ہے لیکن پھر اسے خیال آتا کہ جب سہاگ رات پر اس کا خاوند اپنے لنڈ سے اس کی نازک کلی جیسی پھدی کی سیل توڑے گا تو جو مزہ آئے گا وہ مزہ سب مزوں پر بھاری ہو گا۔ آہ۔ کتنے ارمان تھے ارم کے جو آنسؤوں میں بہہ گئے۔
ایک ماہ کی مسلسل محنت کے باوجود کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ عدنان بدستور نا مرد تھا اور ارم بدستور کنواری۔ سب طریقوں سے مایوسی کے بعد اب ارم نا امید ہو چلی تھی۔ عدنان کو بھی اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اب اس کی ازدواجی زندگی کا بچنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اسے تو ایسا لگتا تھا کہ شاید ہی اس کا لنڈ اب کھڑا ہو کیونکہ اس نے شادی کے بعد ارم سے چھپ کر پورن فلم دیکھی لیکن سیکسی جنسی اداکاراؤں کو ننگی کیمرے کے سامنے چدتے دیکھ کر بھی اس کے لنڈ پر کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ عدنان کو اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ ایسی باتیں چھپی نہیں رہ سکتیں۔ اگر ارم نے طلاق لی تو یقیناً وہ کسی نہ کسی کو تو وجہ بتائے گی ہی اور اس طرح یہ بات پھیل جائے گی۔ بدنامی تو جو ہو گی سو ہو گی، عدنان کا شادی کا راستہ بھی مکمل بند ہو جائے گا۔ ان سب چیزوں کے باوجود عدنان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ کچھ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ ذہنی طور پر اس نے خود جو تیار کر لیا تھا کہ ہو نہ ہو اب ارم اس سے طلاق کا مطالبہ کرے گی۔ ان سب خیالات کی گردش میں عدنان نے سوچا کہ اس مختصر شادی میں جس سے کوئی خوشگوار یاد وابستہ نہیں، کیوں نہ کوئی ایس کام کریا جائے جس سے ارم مستقبل میں اس شادی کو اچھے الفاظ میں یاد کرے۔ یہی سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ ارم کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروا دی جائے۔ اس نے ارم کو بتائے بغیر دفتر سے دو ہفتے کی چھٹی اور ایڈوانس تنخواہ لے لی اور ارادہ کیا کہ گھر جا کر ارم کو سرپرائز دے گا۔
گھر پر ارم بھی اپنا ذہن بنا چکی تھی کہ آج وہ عدنان سے علیحدگی کا مطالبہ کرے گی۔ آخر ایسے کب تک گزارا ہو گا۔ طلاق کے بعد جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ شام کو عدنان گھر آیا تو اچھے موڈ میں تھا۔ ارم کے بات کرنے سے پہلے ہی عدنان نے اسے پیکنگ کرنے کا کہا۔ ارم کو جب معلوم ہوا کہ وہ سیر پر جا رہی ہے تو اس نے طلاق والی بات کو موخر کر دیا اور تیاری کرنے لگی۔ گھر والوں کو بتا کر وہ دونوں بس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔

ارم اور عدنان بذریعہ بس مانسہرہ پہنچے اور وہاں سے ایک پرائیویٹ ٹیکسی کروا کر ناران کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں سر سبز و شاداب پہاڑی علاقے اور ٹھنڈا موسم تھا لیکن اس خوشگوار موسم کا ارم پر الٹا ہی اثر ہوا۔ اس کی اداسی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اگرچہ عدنان نے بہت کوشش کی کہ ارم کا موڈ ٹھیک ہو جائے اور وہ انجوائے کر سکے لیکن جب اندر سے ہی انسان پریشان ہو تو پھر باہر چاہے کیسا ہی موسم ہو، خوشی نہیں ہوتی اور ارم کی پریشانی تو انتہائی حساس نوعیت کی تھی۔ ایک مہینے سے ذیادہ ہو گیا تھا شادی کو اور بیچاری ابھی تک کنواری تھی۔ اس کے دکھ کا انداذہ اس کے چہرے سے ہی ہو جاتا تھا۔ شادی کے چند روز بعد جب وہ اپنے گھر گئی تھی تو اس کی ماں اس کا چہرہ دیکھتے ہی بھانپ گئی تھی کہ یقیناً دال میں کچھ کالا ہے۔ تب ارم نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ اپنا دکھ اپنے تک ہی رکھے لیکن ماں کا اصرار اور پریشانی دیکھ کر اسے سچ بتانا ہی پڑا تھا۔ بتانے کے باوجود اس کی ماں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ بجائے طلاق یا علیحدگی کے عدنان کا علاج کروانا چاہئے۔ عدنان کے ساتھ ناران کے سفر میں ارم سارا رستہ سوچوں میں ہی مگن رہی تھی اور اب بھی ٹیکسی میں عدنان بار بار اس کی توجہ قدرت کے حسین مناظر کی طرف مبذول کرواتا لیکن ارم بس ایک نظر دیکھ کر پھر کسی سوچ میں گم ہو جاتی۔ ٹیکسی ڈرائیور بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھے عدنان اور ارم کی حرکات و سکنات دیکھ کر حیران تھا۔ ڈرائیور کا نام گل خان تھا لیکن سب لوگ اسے پیار سے فولاد خان کہتے تھے۔ اس کی وجہ اس کا فولادی جسم تھا۔ وہ محنت کرنے سے کبھی نہیں چوکتا تھا اور روزانہ صبح سویرے ورزش اس کا معمول تھا۔ چالیس سال کی عمر میں بھی تیس سے کم کا نوجوان معلوم ہوتا تھا۔ تقریباً بیس سال سے یہی کام کر رہا تھا۔ اس نے سینکڑوں مرتبہ نو بیاہتا جوڑوں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروائی تھی۔ وہ حیران بھی اسی لئے تھا کہ عمومی طور پر ہنی مون پر آئے جوڑوں کا رویہ جیسا ہوتا تھا، ارم اور عدنان کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ عموماً ایسے جوڑے ایک دوسرے سے چپک کر باہر کے نظاروں کا لطف لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو چومنے سے بھی نہیں چوکتے۔ نظر بچا کر فولاد خان بھی بیک ویو مرر میں ایسے لمحات کو دیکھ لیا کرتا تھا اور سچی بات تو یہ تھی کہ فولاد خان کو اس کام میں یہی چیز کھینچتی تھی ورنہ اس سے زیادہ منافع بخش کام کا موقع بھی دستیاب تھا۔ فولاد خان کرایہ تو لیتا ہی تھا ہر سواری سے لیکن جب سواریاں ایک نو بیاہتا جوڑا ہو جو ٹیکسی میں ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرنے سے بھی نہ باز آئیں تو فولاد خان ایسے مناظر کو اپنے لئے بونس سمجھتا تھا۔ آج بھی جب اس نے ارم اور عدنان کو اپنی ٹیکسی میں بٹھایا تو اس کا خیال تھا کہ سفر بہت اچھا گزرے گا کیونکہ ارم کی خوبصورتی کا اندازہ اسے صرف چہرے سے ہی ہو گیا تھا۔ باقی جسم ارم نے ایک بڑی چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ فولاد خان نے کئی جوڑے دیکھے تھے جو ٹیکسی میں بیٹھتے وقت اتنے شریف النفس معلوم ہوتے تھے کہ جیسے ان سے شریف کوئی ہو ہی نہ لیکن جیسے جیسے سفر طے ہوتا تھا ویسے ویسے ان کی شرافت کا لبادہ اترتا جاتا تھا۔ کئی برقعے والیوں کو فولاد خان نے سفر کے اختتام پر جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس دیکھا تھا۔ دوپٹہ کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ فولاد خان کو ایسے جوڑے خصوصاً پسند تھے۔ یہ بات نہیں کہ فولاد خان کوئی برا آدمی تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں انتہائی شریف مشہور تھا۔ اس کی دو عدد بیویاں تھیں جن سے کل آٹھ بچے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ فولاد خان جب نو بیاہتا جوڑوں کو دیکھتا تھا تو اس کی جنسی حس میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا تھا۔ جب پیچھے کوئی نو بیاہتا جوڑا آپس میں ہلکی ہلکی سرگوشیاں کر رہے ہوں، ہنس رہے ہوں اور موقع دیکھ کر بوس و کنار بھی کریں، تو ایسے میں فولاد خان کا ایک ہاتھ بے اختیار اپنے فولادی لنڈ پر چلا جاتا تھا۔ اکثر وہ پیشاب کے بہانے ٹیکسی روک کر مٹھ مارا کرتا تھا تاکہ خود کو قابو میں کر سکے۔ سفر کے آغاز پر اسے امید تھی کہ چار گھنٹے کے سفر میں اسے دو بار مٹھ مارنی پڑے گی کیونکہ ارم کا حسن اسے بہت بھایا تھا لیکن اب اسے انتہائی مایوسی ہو رہی تھی کیونکہ ارم کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے اسے کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں۔
قصور تو اس میں ارم کا بھی نہیں تھا۔ اس بیچاری کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اور ہو رہا تھا، اس کے بعد ایسا موڈ قدرتی تھا۔ عدنان مسلسل کوشش کر رہا تھا کہ اس کا موڈ ٹھیک ہو جائے لیکن وہ بس ہوں ہاں میں ہی اس کی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔ اسے گاڑی کے باہر حسین قدرتی مناظر میں بھی کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ کبھی وہ اپنے سامنے والی خالی سیٹ کی پشت کو گھورنا شروع کر دیتی تو کبھی ٹکٹکی باندھے ٹیکسی کے ڈیش بورڈ کو گھورنے لگتی۔ عدنان ڈرائیور کے عین پیچھے بیٹھا تھا جبکہ ارم ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ کے پیچھے بیٹھی تھی۔ عدنان کو تو سہاگ رات سے ہی یہ احساس تھا کہ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ بار بار ارم کو متوجہ کر کے باتیں کر رہا تھا۔ ارم کو اسی وجہ سے بار بار اپنی نظریں عدنان کی جانب کرنی پڑ رہی تھیں۔ ایسے میں اچانک ارم کی نظر ٹیکسی میں لگے بیک ویو مرر پر پڑی تو اس کی نظریں فولاد خان کی نظروں سے ٹکرا گئیں جو نہ جانے کب سے بار بار ارم کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔ ارم سے نظریں ملتے ہی فولاد خان نے اپنی نظریں ہٹا لیں۔ شاید ارم اسے محض ایک اتفاق ہی سمجھتی لیکن فولاد خان کے ردعمل نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس کا ردعمل ایسا تھا جیسے وہ کوئی غلط کام کرتے پکڑا گیا ہو۔ ارم سوچنے لگی کہ کہیں یہ ڈرائیور کوئی جرائم پیشہ آدمی نہ ہو۔ اب ارم عدنان کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے خود بھی وقفے وقفے سے بیک ویو مرر میں دیکھ رہی تھی اور اس نے کئی بار فولاد خان کو اسے گھورتے ہوئے پکڑا لیکن اسے اپنا جرائم پیشہ والا خیال خود ہی رد کرنا پڑا کیونکہ فولاد خان کا رویہ ان دونوں سے انتہائی دوستانہ تھا۔ ہو سکتا ہے فولاد خان ارم کے حسن کی تاب نہ لا کر بے قابو ہو گیا ہو اور بے اختیار اس کی نظریں ارم کی جانب اٹھتی ہوں۔ ارم یہ سوچ کر بے اختیار شرما سی گئی۔ اس بات کا تو اسے پہلے ہی یقین تھا کہ عدنان کی نا مردی کا اس کی خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی شادی کے بعد سے اب تک اپنے ذہن کے کسی نہاں خانے میں وہ خود کو بھی اس بات کا ذمہ دار سمجھتی آئی تھی کہ اس کے شوہر کا لنڈ کھڑا نہ ہو سکا تھا۔ اس کی ڈپریشن کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ ظاہر ہے جب ایسی صورتحال ہو اور وجہ بھی نا معلوم ہو تو انسان ہر ممکن وجہ کو زیر غور لاتا ہے اور ارم نے بھی یہی کیا تھا لیکن آج فولاد خان کے گھورنے سے یہ بات تو ارم کو واضح ہو گئی تھی کہ اس کی خوبصورتی میں کوئی نقص نہیں۔ اگر عدنان کی نا مردی کا کوئی قصوروار تھا تو وہ خود تھا۔ یہ سوچ ارم کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی کیونکہ جو خود اعتمادی اپنے شوہر کی نا مردی سے کم ہو گئی تھی وہ کسی حد تک بحال ہونا شروع ہوئی تھی۔ اس کا ثبوت وہ مسکراہٹ تھی جو ارم کے فولاد خان کو بیک ویو مرر میں دیکھنے پر اس کے ہونٹوں پر آ گئی تھی۔ فولاد خان بیچارہ سیدھا سادھا پٹھان تھا جو صرف جوڑوں کو چوری چھپے دیکھ کر مٹھ مارا کرتا تھا۔ جب ارم نے اسے دیکھتے ہوئے پکڑ لیا تو ایک دفعہ تو وہ گڑبڑا کر ہی رہ گیا تھا لیکن ارم کا ردعمل اس کیلئے حوصلہ افزا تھا۔ خصوصاً ارم نے جب فولاد خان کو دیکھ کر مسکراہٹ پاس کی تو فولاد خان کا لنڈ ایک دم تن گیا۔ نہ جانے ایسا کیا تھا ارم میں۔ عدنان نے بھی ارم کی مسکراہٹ دیکھی تھی اور وہ یہ سمجھا تھا کہ ارم اس کی باتیں سن کر پگھل رہی ہے۔ عدنان کو یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ارم کا موڈ سیکس کے بغیر بھی ٹھیک کرنے میں کامیاب کو جائے گا۔ انہیں سفر کرتے ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو چلا تھا اور راستے میں کوئی بھی آبادی نہیں آئی تھی۔ بس اکا دکا گاڑیاں ہی سڑک پر نظر آ جاتی تھیں۔ ارم نے سفر کے آغاز میں بیت الخلا جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی لیکن اب وہ اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہی تھی۔ راستے میں پانی پینے کی وجہ سے اسے اب پیشاب کی حاجت محسوس ہونے لگی تھی۔ پہلے پہل اس نے برداشت کیا لیکن جب بے چینی بڑھنے لگی تو وہ کبھی دائیاں ٹانگ بائیاں ٹانگ کے اوپر رکھتی اور کبھی بائیاں دائیں کے اوپر۔ نہ صرف عدنان بلکہ فولاد خان بھی ارم کے بار بار پہلو بدلنے سے بھانپ گیا تھا کہ ارم کو حاجت محسوس ہو رہی ہے۔ ارم نے مارے شرم کے کچھ نہ کہا لیکن جب عدنان نے سرگوشی میں ارم سے پوچھا کہ کوئی مسلہ ہے کیا؟ تو ارم کو بتانا ہی پڑا کہ پیشاب بہت تیز آ رہا ہے۔

Please rate this story
The author would appreciate your feedback.
  • COMMENTS
Anonymous
Our Comments Policy is available in the Lit FAQ
Post as:
Anonymous
2 Comments
karli1234karli123412 months ago

buhat achha start hay, pls jaari rakhain, main buhat excited hoo baaqi kahai parhnay kay liye

AnonymousAnonymousalmost 3 years ago

کہانی کہنے کا انداز اچھا لگ

Share this Story

Similar Stories

Encounter with my Distant Bhabhi A tale of how I developed forbidden feelings.in First Time
Adventures of Bubbly Ch. 01 - Pehla Damaka Pakistani guy is taken by his uncle.in Transgender & Crossdressers
Man of Power Ch. 01 Business executive meets middle-class receptionist and...in Celebrities & Fan Fiction
My Memoirs Ch. 01 My life story, My memoirs.in Toys & Masturbation
दो आर्मी नर्सों की चुदाई Sexual encounters of two Pakistan Army nurses.in Loving Wives
More Stories