Desi Mother Adopted Western Culture

Story Info
Mother from Pakistan adopted western culture.
1.5k words
2.74
39.6k
1
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here
obablee
obablee
54 Followers

This story is in Urdu language. This is a story about a mother and daughter who are from Pakistan. Daughter got scholarship from a western university and start study there. Later on, mother visit her daughter and during he stay in a western country she adopted western culture which was taboo for her. Within a short time of period, she transformed from typical and conservative woman into cock hungry western slut.

ببلی آج بہت خوش تھی۔ اسکی بیٹی آمنہ کو ایک امریکن یونیورسٹی کا اسکالرشپ ملا تھا۔ ماں اور بیٹی کے درمیان سیہلیوں جیسا رشتہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہر بات شئیر کرتی تھیں۔ ببلی کے شوہر کے کار ایکسیڈنٹ کے بعد گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئی تھے ۔ چونکہ ببلی کا شوہر گھر کا واحد کفیل تھا اس لیے آج کل ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہو رہا تھا۔ آمنہ کو اسکرلرشپ کی مد میں ہر ماہ اچھی رقم ملنا تھی۔ اس لیے ببلی بہت خوش تھی اور سوچ رہی تھی کہ اب تھوڑے حالات بہتر ہو جائیں گے۔

ببلی کی بیٹی آمنہ سارے انتظامات مکمل ہو جانے کے بعد امریکہ چلی گئی اور ہر مہینے اپنی اسکالرشپ سے کچھ پیسے بچا کرواپس پاکستان بھجواتی رہی ۔ آمنہ نے گھر کے حالات بہتر کرنے کے لیے ایک پارٹ نوکری بھی کرلی تھی۔ چنانچہ اب فیملی کے مالی حالات کافی بہتر ہو گئے تھے۔ آمنہ اپنی والدہ ببلی کو بہت زیادہ مس کرتی تھی۔ بچپن سے لے کر جوانی تک آمنہ نے ہمیشہ اپنی والدہ کو اپنی بہترین سہیلی کے روپ میں دیکھا تھا۔ اور ویسے بھی خاندان، محلے، سکول اور کالج میں اس نے اپنی کوئی سہیلی نہیں بنائی تھی۔ آمنہ چھوٹیوں میں واپس پاکستان آنا چاہتی تھی لیکن گھر کے حالات کی بہتری کی خاطر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ لیکن ایک دن جب وہ ٹیلی فون پر امی والدی ببلی سے باتیں کر رہی تھی تو باتوں باتوں میں اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نا اپنی والدہ ببلی کو امریکہ بلوا لیا جائے۔ ہر سٹوڈنٹ کے پاس یہ آپشن تھا کہ وہ اپنے والدین کو امریکہ بلوا سکتے تھے۔ چنانچہ عامنہ نے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی والدہ ببلی سے بھی رائے لی اور اسے سمجھایا کہ اگر وہ امریکہ آجائے تو بہت فائدہ ہوگا۔ ایک تو وہ اپنی پیاری والدہ سے مل لے گی اوردوسرا یہ کہ چند ماہ لگا کر اسکی والدہ ببلی بھی پارٹ نوکری کر لے گی اور اچھے پیسے کما لے گی۔

شروع میں تو ببلی نے صاف انکار کر دیا لیکن بعد میں جب اس نے اپنے بیمار شوہر سے مشورہ کیا تو اس نے ببلی کی حوصلہ افزائی کی اور اسے امریکہ جانے کے لیے کہا۔ ببلی نے اپنی بیٹی عامنہ کو اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ چنانچہ عامنہ نے ببلی کو امریکہ بلوانے کی تیاریاں شروع کر دی۔

ببلی ایک چالیس سالہ دبلی پتلی عورت تھی۔ اس کے سیاہ لمبے بال تھے۔ قد کاٹھ اور جسمانی خدوخال بھی کافی بہتر تھا۔ اسکی جلد کافی صاف اور گندمی رنگ کی تھی۔ اسکے پستان اور چوتر گول اور ابھرے ہوئے تھے اور برقعے یا چادر پہننے کے باوجود انکے ابھار اور خم صاف محسوس ہوتے تھےاور کوئی بھی دیکھ کر انکا درست سائز بتا سکتا تھا۔ وہ بالکل بھی چالیس کی نہیں لگتی تھی۔ ببلی اور اسکی بیٹی عامنہ میں بہت زیادہ مشہابت تھی۔ پچھلے چند سالوں سے عامنہ اور ببلی کا قد کاٹھ ایک جیسا ہونے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے کپڑے بھی پہن لیا کرتی تھیں۔

چند ماہ کی تیاریوں اورکوششوں کے بعد ببلی اپنی بیٹی عامنہ کے پاس امریکہ پہنچ گئی تھی۔ ببلی ایک مکمل گھریلوعورت تھی۔ اسکی تعلیم بھی واجبی سی تھی۔ لوئر مڈل کلاس کی روایتی خواتین کی طرح وہ بھی خاصی شرمیلی اور رجعت پسند تھی۔ وہ زندگی میں پہلی دفعہ کسی دوسرے ملک میں آئی تھی۔ اس کے لیے یہ سب کرنا بہت مشکل تھا۔ حالانکہ وہ کبھی اکیلی بازار نہیں گئی تھی دوسرے شہر یا ملک اکیلے جانا اسکے لیے واقع ہی ایک بہت بڑی بہادری کی بات تھی۔

ببلی کی بیٹی عامنہ کالج کے گرلز ہوسٹل میں مقیم تھی جو کہ اسے کالج انتظامیہ کی طرف سے اسکالرشپ کی وجہ سے ملا تھا۔ عامنہ اپنی والدہ کو ہوسٹل لے آئی تھی اور آئندہ ببلی نے ادھر ہی رہنا تھا۔ امریکہ میں والدین اپنے بچوں کے ہوسٹل ناصرف آسکتے تھے بلکہ وہاں غیر معینہ مدت کے لیے رک بھی سکتے تھے۔ ببلی نے اپنے کلاس فیلوز کو اپنی والدہ کی آمد کے بارے میں بتایا ہوا تھا لیکن اس نے والدہ کے بجائے بڑی بہن کی آمد کا کہا تھا۔

جب ببلی نے ایک دن مکمل آرام کر لیا تو عامنہ نے اسے بتایا کہ وہ اسکے کسی کلاس فیلویا دوست کو میری والدہ کے طور پر طرف نا کروائے بلکہ میری بڑی بہن کے طور پر تعارف کروائے۔ ببلی یہ سن کر تھوڑی پریشان ہوئی اور عامنہ سے استفسار کیا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔ عامنہ نے ببلی کو تفصیل کے ساتھ بتایا کہ اگر میں نے ان سے آپ کا اپنی والدہ کے طور پر تعارف کروا دیا تھا تو پھر وہ سب ہم سے ہچکچائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ جب تک آپ ادھر ہیں وہ سب مجھ سے دور دور رہیں گے۔ ببلی کو عامنہ کی بات سمجھ آگئی تھی۔ لیکن پھر اس نے پوچھا کہ کیا تمہارے دوستوں کو شک نہیں ہو گا میرے بارے میں؟ عامنہ نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں ۔ ایک تو ہم دونوں میں بہت زیادہ مشہابت ہے اور دوسرا آپ بالکل بھی شادی شدہ یا چارہ بچوں کی ماں نہیں لگتی۔ تیسرا یہ کہ آپ جب یہاں کے مغربی لباس جو جوان لڑکیاں پہنتی ہیں وہ استعمال کریں گی تو آپ بالکل میری طرح چھوتی عمر کی لڑکی ہی نظر آئیں گی۔ ببلی اپنی بیٹی کی بات سن کر شرما گئی پر ساتھ ہی اس نے ایک عامنہ پر واضع کر دیا کہ وہ کسی بھی قسم کا اوچھا مغربی لباس نہیں پہنے گی۔ عامنہ نے مسکراتے ہوئے ببلی کے دونوں کندھوں پر پیار سے جھک کر کہا کہ امی ہم اس وقت اپنے روایتی اور رجعتی پسند معاشرے سے کوسوں دور موجود ہیں۔ نا تو یہاں کوئی ہمارے خاندان یا محلے کافرد موجود ہے اور نا ہی انہیں ہماری یہاں کی سرگرمیوں کا پتہ چلے گا۔

ببلی نے اپنی پیاری بیٹی کو پیار سے اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا کہ بیٹی جیسے تمہاری مرضی۔ میں جتنے دن بھی ادھر ہوں تمہاری مہمان ہوں تم جیسے کہو گی میں ویسے ہی کروں گی۔ عامنہ نے پیارسے ببلی کے دائیں گال پر ہلکا سا بھوسا لیا اور کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ میری والدہ یہاں کی آزاد اور مختلف زندگی کو بھرپور انجوائے کرے۔

عامنہ امریکہ آنے سے پہلے کافی ڈرپوک اور شرمیلی سی لڑکی تھی لیکن پچھلے ایک سال سے وہ مغربی ماحول میں رچ بس سی گئی تھی۔ اس میں حددرجہ زیادہ اعتماد آگیا تھا اور وہ کافی سوشل ہو گئی تھی۔ اس نے کافی دوست بنا لیے تھے۔ عامنہ چونکہ ایک ہوٹل میں ویٹر کے طور پر کام کر رہی تھی لہذا اسے مجبوراً مغربی لباس زیپ تن کرنا پڑ رہا تھا۔ لیکن کچھ ہفتوں بعد عامنہ نے روایتی اسکارف اور شلوار قمیض پہننا ترک کر دیا تھا۔ اور وہ باقی لڑکیوں کی طرح روٹین میں ہی جیزاور اسکرٹ وغیرہ پہننا شروع ہو گئی تھی۔ پچھلے چند ہفتوں سے وہ کافی دفعہ شارٹ اسکرٹ اور شارٹس جینز استعمال کر رہی تھی۔ اسکی شرٹ اور قمیض کا گلا بھی کافی کھلا اور گہرا ہو گیا تھا۔ گلہ اتنا کھلا اور گہرا ہو گیا تھا کہ اسکے پستانوں کا گول ابھار کا کافی حصہ ننگا ہو جاتا تھا اور پستانوں کے درمیان موجود خط گہرائی تک نظرآتا تھا۔

ببلی اپنی بیٹی کے لباس کے بارے میں مکمل لاعلم تھی۔ عامنہ نے ببلی کو اپنی ایک عدد جینزاور شرٹ پہنے کے لیے دی۔ ببلی نے پہننے سے انکار کردیا۔ لیکن عامنہ کے شدید اسرار پر ببلی نے جینز اور شرٹ پہن لی۔ ببلی نے زندگی میں پہلی دفعہ ایسا لباس پہنا تھا۔ وہ بہت زیادہ شرما رہی تھی اور بہتر محسوس نہیں کررہی تھی۔ لیکن عامنہ نے اپنی امی کو ایک دفعہ پھر پیار سے سمجھایا اور انکا حوصلہ بڑھایا۔ اس نے اپنی امی کو ان لمحات کو انجوائے کرنے کے لیے کہا۔

ببلی جنز اور شرٹ میں بہت پیاری اور سیکسی لگ رہی تھی۔ اسکے پستان شرٹ کے اندر سے کافی نمایاں ہو تھے اور جینز میں گول گول چوتر بھی بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ ببلی نے کافی دیر آئینے کے سامنے خود کو گھوم کر کافی دفعہ دیکھا۔ اس عجیب سا تو لگ رہا تھا لیکن برا بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا۔ عامنہ نے ببلی کے بالوں کو دو پونیوں میں قید کر دیا تھا۔ ببلی بالکل ایک مغربی بالی عمر کی لڑکی لگ رہی تھی۔ عامنہ کے میک اپ نے ببلی کو مزید خوب صورت اور سیکسی بنا دیا تھا۔

عامنہ ببلی کوسیرکروانے کے لیے جب ہوسٹل سے بہر نکلی تو ببلی کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سب لوگ صرف اسی کو دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ اسکی طرف کوئی بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ جب ببلی کو یقین ہو گیا کہ کوئی بھی اس کے لباس کی طرف یا اسکی طرف دھیان نہیں دے رہا اور سب خواتین تقریبا نیم برہنا مغربی لباس پہن رکھے ہیں تو وہ ماحول کے مطابق ایڈجسٹ ہونا شروع ہو گئی۔ اور جب وہ دونوں اچھی طرح پورا شہر گھوم کر واپس ہوسٹل پہنچے تو ببلی یکسر بھول چکی تھی کہ اس نے مغربی لباس پہن رکھا ہے۔ دونوں ماں بیٹی نے خوب مزے کیے۔

(کہانی جاری ہے)

obablee
obablee
54 Followers
Please rate this story
The author would appreciate your feedback.
  • COMMENTS
Anonymous
Our Comments Policy is available in the Lit FAQ
Post as:
Anonymous
1 Comments
AnonymousAnonymousover 4 years ago
Sex

Hello beautiful ladies Mera name kazim ha aur me Lahore sy hn agar app safe sex karna chahti ho to call ya WhatsApp k zariye mun sy rabta kariye

03224799345

Share this Story

Similar Stories

Indian Mom's Kenyan Escapade Ch. 01 An Indian single mother's Kenyan escapade with a black man.in Interracial Love
Chudana Aacha Hia Ch. 01 Pahli chudai ka likh rahe hoon akhir tak saath chaleyaga.in First Time
Debauchery of Indian Wife Menaka Ch. 01 Menaka and Sanjay get serious about sex.in Loving Wives
The Two Couples: Epilogue The end of one section, the planning for nestin Loving Wives
Indian Village Girl trapped in USA Indian Village girl's NRI dream turns nightmare.in Loving Wives
More Stories