برہنہ پن

Story Info
It is a story of a conservative girl abt discovering nudism
6.1k words
4
2.6k
0
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

پہلی رات ننگی ہو کر سونے سے جسم میں ایک خوشگوار تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے عام دنوں کے مقابلے میں آج میں ذیادہ فریش ہوں۔ چاق و چوبند بھی۔ چھٹی کا دن تھا اور عموماً میں گھر کے کام کاج بہت بے دلی سے کیا کرتی تھی لیکن آج تو امی بھی کایا پلٹ دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں کہ اسے کیا ہو گیا ہے آج۔ دراصل میں اندر ہی اندر بہت خوش تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نئی زندگی کا آغاز ہو گیا ہو۔ ویسے یہ بات بھی مجھے بے چین کئے جا رہی تھی کہ اپنے اس راز میں کسی کو شریک بناؤں۔ یہ تو انسانی فطرت ہے کہ انسان کیلئے راز کو راز رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ کم ہی لوگ کچھ چھپا پاتے ہیں سب سے۔ میں تو ان لوگوں میں سے نہیں ہوں لیکن ابھی میں نے کسی کو یہ بتانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔
پہلی رات کے بعد میری اپنے آپ سے جھجک ختم ہو گئی تھی اور اب میرا روز کا معمول تھا کہ کالج سے آتے ساتھ کمرے میں آ کر کپڑے اتار دیتی اور کچھ دیر بستر پر ایسے ہی لیٹی رہتی۔ جب تک کوئی آواز نہ دیتا میں اٹھتی نہیں تھی۔ عام طور پر امی ہی آوازیں دے کر اٹھا دیتی تھیں۔ میری جولیا سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اب میں اس سے اور وہ مجھ سے بہت بے تکلف ہو گئی تھی۔ اس نے تو مجھے آفر بھی کی تھی کہ مجھے جس طرح کی مدد چاہیے ہو، وہ حاضر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جولیا مجھے اپنے گھر والوں کی اور اپنی تصاویر بھی دکھاتی رہتی تھی۔ وہ اتنی بے تکلف ہو رہی تھی مجھ سے کہ مجھے کبھی کبھی خود ہی شرمندگی محسوس ہونے لگتی۔ اس بات پر کہ میں نے اسے بس ایک ہی تصویر بھیجی تھی آج تک اپنی اور اس نے کبھی تقاضا تک نہیں کیا جبکہ اس کے برعکس میں اس سے اکثر تصاویر مانگ کر دیکھا کرتی تھی۔ شاید یہی وہ احساس تھا جس سے مجبور ہو کر میں نے اپنی ننگی تصاویر اتارنا شروع کر دیں۔ ویڈیوز بھی بنائیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ان تصاویر اور ویڈیوز کا مقصد یہ نہیں تھا کہ کسی کے جنسی جذبات مشتعل کئے جائیں۔ ویسے بھی جو تصاویر میں نے بنائیں وہ بالکل نارمل تھیں۔ نارمل سے مراد یہ کہ میں ان تصاویر میں کوئی سیکسی پوز بنا کر نہیں کھڑی تھی بلکہ اپنے کمرے میں کسی نہ کسی کام میں مشغول دکھائی دیتی تھی۔ دراصل میں کرتی یہ تھی کہ کیمرے کو ایک خاص جگہ رکھ کر اس پر ٹائم سیٹ کر دیتی تھی اور خود اپنے کمرے کی صفائی کرنے لگ جاتی تھی۔ موبائل فون میں وقفے وقفے خود بہ خود تصاویر کھنچتی رہتی تھیں۔ کام سے فارغ ہو کر میں نازیبا تصاویر کو ڈیلیٹ کر دیتی تھی۔ نازیبا تو کوئی تصویر نہیں ہوتی لیکن جس تصویر پر مجھے ذرا سا بھی شبہ ہوتا کہ اس تصویر کو دیکھ کر کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ میں نے جان بوجھ کر اپنے جنسی اعضاء نمایاں کئے ہیں, ایسی تصاویر کو میں ڈیلیٹ کر دیتی تھی۔ بہرحال، میں نے بھی جولیا کو اپنی تصاویر بھیجنا شروع کر دیں۔ وہ میری تصاویر دیکھ کر ہمیشہ مجھے شاباش دیتی تھی۔
اب صورتحال یہ تھی کہ میرا معمول بن گیا تھا کالج سے آ کر اپنے کمرے میں ننگی رہنا۔ اپنا ہوم ورک کرنا۔ جب کوئی آواز دے تو کپڑے پہن کر بات سننا۔ پھر کام کاج سے فارغ ہو کر جلد از جلد اپنے کمرے میں گھس کر ننگی ہو کر جولیا سے بات چیت کرتی رہتی۔ جولیا کی دونوں بیٹیاں بہت پیاری تھیں۔ معصوم سی پریاں معلوم ہوتی تھیں۔ بعض تصاویر میں ننھی پریاں ننگی کھیل رہی ہوتیں تو کبھی سوئمنگ پول میں نہا رہی ہوتیں۔ مجھے ان کی فیملی کی تصاویر بھی بہت بھاتی تھیں۔ جولیا کے شوہر بھی کافی گریس فل تھے۔ باوجود ننگے ہونے کے ان کے چہرے پر متانت تھی۔
تقریباً ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ میں اور جولیا اب بہترین دوست تھیں۔ اگرچہ ہماری عمروں میں بہت زیادہ فرق تھا لیکن جولیا نے ہمیشہ میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے وہ میری ہم عمر ہو۔ پہلے پہل تو جولیا سے صرف میسج کے ذریعے ہی بات چیت ہوتی تھی لیکن آہستہ آہستہ جیسے جیسے بے تکلفی بڑھتی گئی، ہمارے درمیان کالز کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اگرچہ میری انگریزی واجبی ہی سی تھی لیکن پھر بھی ہماری دوستی دن بدن مضبوط ہوتی گئی۔ مجھے وہ رات کبھی نہیں بھولے گی جب پہلی بار جولیا کی آواز سنی۔ اس کی آواز بہت پیاری تھی۔ میں نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنا تعارف کروایا۔ جانتی تو وہ پہلے سے تھی مجھے۔ میں اتنی نروس تھی کہ مجھ سے بات ہی نہیں ہو رہی تھی۔ جولیا نے مجھے حوصلہ دیا اور کال پر ہی اس نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو ویڈیو کال پر بھی اس سے بات کر سکتی ہوں۔ یوں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں گے تو جھجک بالکل ختم ہو جائے گی۔ میں نے فوراً ہاں کہہ دی۔ یہ پہلا موقع تھا میری زندگی کا کسی غیر ملکی سے بات کرنے کا اور وہ بھی ویڈیو کال پر۔ یہ بتا دوں کہ میں اور وہ دونوں ہی مکمل ننگی تھیں۔ دراصل جولیا تو ہمیشہ ہی ننگی رہتی تھی لیکن اب میں بھی اس قابل ہو گئی تھی کہ کم از کم جولیا کے سامنے ننگی ہونے کا حوصلہ آ گیا تھا مجھ میں۔ ہم نے ویڈیو کال پر ایک دوسرے کو دیکھا۔ وہ بھی کمرے میں اکیلی تھی۔ بچیوں کا تو علیحدہ کمرہ تھا اور وہ سو رہی تھیں لیکن اس کا شوہر پتہ نہیں کہاں تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کا شوہر اپنے نیوڈسٹ دوستوں کے ساتھ امریکن فٹبال کا میچ دیکھ رہا ہے دوسرے کمرے میں۔ جولیا کو فٹبال سے ذیادہ دلچسپی مجھ سے بات کرنے میں تھی۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا تھا۔ وہ رات اس لئے بھی میرے لئے یادگار تھی کہ میں نے جولیا سے بہت باتیں کیں۔ بعض اوقات تو وہ میری باتیں سن کر ہنس پڑتی تھی۔ جولیا کا جسم اس عمر میں بھی بہت خوبصورت تھا۔ میں نے اس کے جسم کی تعریف کی۔ اس نے مجھے اپنا جسم کلوز اپ کر کے دکھایا۔ نپلز دکھائے بالکل قریب سے۔ گورا چٹا جسم، گلابی نپلز۔ چوت بھی بالکل قریب سے دکھائی۔ پنک کلر کی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کا جسم دیکھ کر مجھے اپنا جسم حقیر معلوم ہونے لگا تھا۔ یہ بات نہیں کہ میں کوئی بہت موٹی تھی۔ دراصل مجھے رنگ کا کمپلکس محسوس ہوا تھا۔ جولیا شاید میرے لہجے میں یہ بات بھانپ گئی تھی۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ رنگ سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ویسے بھی کسی کے اختیار میں نہیں۔ اپنا رنگ ہم خود تو تبدیل نہیں کر سکتے نا۔ لہذا اس پر کڑھنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے۔ جولیا کو تو میرا جسم بہت اچھا لگا۔ میں نے بھی اسے اپنے چھوٹے چھوٹے براؤن نپلز دکھائے۔ چوت دکھائی۔ دراصل میرا رنگ سانولا تھا اور چوت میں سیاہ رنگ غالب تھا جبکہ جولیا کی چوت کا رنگ ہلکا گلابی تھا اور دیکھنے میں بالکل کسی پھول کی پنکھڑی سی معلوم ہوتی تھی۔ کاش میری چوت کا رنگ بھی ایسا ہوتا۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ جولیا نے مجھے بتایا کہ میرا رنگ بہت پیارا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایسے رنگ پر امریکی مرد مرتے ہیں۔ میں ناشکری ہوں اگر رنگ کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہوتی ہوں تو۔ بہرحال، ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ جولیا کا شوہر بھی کمرے میں آ گیا۔ ان کا نام ڈیوڈ تھا۔ ڈیوڈ جولیا سے عمر میں دو سال چھوٹا تھا۔ یہ بات جولیا نے مجھے کافی پہلے ہی بتا دی تھی اور اس کی بات سن کر میں نے اپنے معاشرے سے موازنہ کیا تو مجھے اتنی شدید شرمندگی محسوس ہوئی تھی کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ کسی اور کی کیا بات کروں، میرے اپنے بھائیوں کے رشتے تلاش کرنے میں جس طرح میری امی نے لڑکیوں میں نقص نکالے تھے بلکہ میں نے بھی امی کے ساتھ کئی لڑکیوں کو ریجیکٹ کیا تھا، وہ ہر گز قابل ستائش نہیں تھا بلکہ قابل ستائش تو دور کی بات ایسے رویے کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔ سب سے پہلے تو ہم نے تلاش ہی ایسی لڑکی کی جو عمر میں بھائی سے کم از کم دس سال چھوٹی ہو اور پھر ہم نے اس کے ظاہری حلیے میں اتنے نقص نکالے کہ وہ بے چاری بھی کیا سوچتی ہوں گی۔ مجھے اپنے رویے پر بے حد شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
خیر، میں بات کیا کر رہی تھی اور کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ دراصل یہ کوئی خود سے بنائی ہوئی کہانی تو ہے نہیں کہ سیدھی سیدھی بیان کر دوں۔ جو جو واقعات ذہن میں آتے ہیں، میں بیان کرتی چلی جاتی ہوں۔ اس لئے واقعات کی روانی اور ترتیب میں تسلسل برقرار نہیں رہ پاتا۔ قارئین سے اس بات کی معذرت چاہتی ہوں۔ شاید میرے لکھنے میں بہتری آ جائے آگے چل کر۔
جولیا کا شوہر کمرے میں آیا تو جولیا نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں چاہوں تو اس سے بھی بات کر سکتی ہوں۔ میں نے حامی بھری اور جولیا نے ڈیوڈ کو فون تھما دیا۔ وہ خود بھی ڈیوڈ کے ساتھ ہی لیٹی تھی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ویڈیو کال پر ہی جولیا اپنے خاوند سے لپٹ گئی۔ حیرت اس لئے کہ میرا خیال تھا کہ ننگا پن ہونے کے باوجود کسی نہ کسی حد تک شرم تو انسان میں باقی رہتی ہی ہے۔ لیکن بظاہر میرا خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ انہیں تو شرم نہ آئی لیکن مجھے انہیں یوں ننگا لپٹا دیکھ کر شرم محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے نظریں جھکا لیں۔ ان کے استفسار پر میں نے بتایا کہ مجھے شرم آتی ہے۔ اس پر حیران ہونے کی باری ان کی تھی۔ بولے شرم کس بات کی۔ میاں بیوی کا یوں لپٹنا ایک قدرتی چیز ہے اور شرم و حیا جیسی چیزیں محض انسانی ذہن کی اختراع ہیں۔ شرم ہے کیا آخر؟ اور شرم کیوں کی جائے؟ کیا شرم اس لئے کی جائے کہ یہ کوئی بہت برا عمل ہے اور اس سے کسی کی حق تلفی ہو رہی ہے یا کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے؟ کیا یہ شرم و حیا کے ٹھیکیدار جسم کے حوالے سے شرم دلاتے ہوئے کبھی اس بات پر بھی شرم دلاتے ہیں کہ لوگوں کا حق نہ مارو، غریبوں کی مدد کرو، کسی کے ساتھ بد زبانی نہ کرو۔ نہیں نا؟ ان کے پاس لے دے کے ایک ہی چیز بچتی ہے اور وہ ہے جسم۔
جولیا اور ڈیوڈ کی باتیں سن کر میں بھی قائل ہو گئی کہ واقعی یہ شرم و حیا جیسی چیزیں اکثر صرف خواتین کے جسم کے حوالے سے ہی سننے میں آتی ہیں۔ کبھی مردوں کو شرم و حیا کا درس نہیں دیا جاتا۔ معاشرے کی اس منافقت پر میں نے دل ہی دل میں برا بھلا کہا اور ڈیوڈ سے باتیں کرنے لگی۔ میرے ذہن میں ایک سوال کلبلانے لگا تھا اور آخر میں نے پوچھ ہی لیا۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ لوگ اس قدر آزاد خیال ہیں اور سر عام بوس و کنار، لپٹنے وغیرہ کو برا نہیں سمجھتے تو کیا لوگوں کے سامنے سیکس کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں کیونکہ سیکس بھی تو ایک قدرتی چیز ہے۔ شرم تو پھر اس پر بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جولیا اور ڈیوڈ نے میرے سوال کی تعریف کی اور بتایا کہ ان کے خیال میں تو سیکس کوئی بری چیز نہیں بلکہ عین منشائے قدرت ہے۔ لہذا اسے بھی پبلک میں کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں لیکن نیوڈسٹ کمیونٹی میں بھی اتنی آذاد خیالی کے باوجود ابھی تک اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ سر عام سیکس کیا جا سکے۔ ڈیوڈ کا جواب میری توقعات کے عین مطابق تھا۔ نیوڈسٹ کمیونٹی کی جتنی معلومات میں نے انٹرنیٹ پر اکٹھی کی تھیں، ان میں تو میں یہ بھی پڑھ چکی تھی کہ یہ لوگ کسی مرد کا لن کا تناؤ بھی برداشت نہیں کرتے اور اسے ایک سیکچوئل چیز قرار دے کر یا تو مرد کو لنڈ ڈھانپنے پر مجبور کیا جاتا ہے ورنہ پھر نا ماننے کی صورت میں کمیونٹی سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات میں نے جولیا اور ڈیوڈ سے بھی ڈسکس کی۔ وہ بھی میرے ہم خیال تھے کہ لنڈ کا کھڑا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ جو لوگ نیوڈزم میں نئے نئے داخل ہوتے ہیں وہ ننگی خواتین کو دیکھ کر اپنے جذبات میں اشتعال محسوس کرتے ہیں جس سے ان کا لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس میں کیا بری بات ہے۔ خواتین کیلئے تو آسانی ہے کہ انہیں اپنے جنسی جذبات مشتعل ہونے پر بھی کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن مردوں کا معاملہ مختلف ہے۔ اگر مردوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنا ہے تو پھر برابری کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ بھی ایسا رویہ رکھیں۔ ہم تینوں نے ہی نیوڈسٹ کمیونٹی کے غلط اصول پر تنقید کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ شاید بنی نوع انسان کبھی اس قابل ہو سکے کہ خود ساختہ معاشرتی پابندیوں مے جال کو توڑ کر صحیح معنوں میں آزادی کا لطف اٹھا سکے۔
جولیا کا شوہر ڈیوڈ مجھے پہلی نظر میں ہی بہت پیارا لگا تھا۔ ویڈیو کال پر میں نے جولیا اور اس کے شوہر سے ساری رات باتیں کی تھیں۔ مجھے تو ڈیوڈ کو دیکھ کر ہالی وڈ کی فلموں کا ہیرو ٹام کروز یاد آ گیا تھا۔ نیلی آنکھیں گورا جسم۔ یہ بات نہیں کہ میں اس پر فدا ہو گئ تھی بلکہ دراصل اسے دیکھ کر ۔یرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ کاش میرا شوہر بھی ایسا ہی خوبصورت ہو۔ سب سے ذیادہ اہم تو یہ کہ اتنا ہی انڈرسٹینڈنگ ہو کہ میں اس سے ہر بات شئیر کر سکوں۔ جب میں نے جولیا اور ڈیوڈ کو پاکستان کے بارے میں اور یہاں کے معاشرے کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ پاکستان کے بارے میں ان کی معلومات بہت کم تھیں۔ خصوصاً پردے نقاب حجاب اور لباس کی بناوٹ پر وہ بہت حیران ہوئے۔ ان کا تاثر تو یہی تھا کہ پاکستان ایک بیک ورڈ ملک ہے لیکن پھر بھی جب میں نے انہیں بتایا کہ یہاں تو یہ حال ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھی لڑکیوں کو زبردستی پردہ کروایا جاتا ہے، کیفے ٹیریا میں بھی لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ بیٹھنے ملنے کی اجازت نہیں، تو وہ دونوں ہی حیران بھی ہوئے اور میری حالت پر افسوس بھی کیا۔ انہوں نے تو مجھے آفر بھی کی کہ اگر میں چاہوں تو امریکہ آ جاؤں اور ان کے پاس رہ لوں۔ تعلیم اور جاب کا کوئی مسلہ نہیں ہو گا۔ ان کی بات سن کر میرا دل تو مچل ہی اٹھا تھا۔ دل کرتا تھا ان کی بات مان کر آج ہی پھر سے اڑ جاؤں لیکن یہ اتنا آسان کام تو نہیں تھا نا۔ ماں باپ کی محبت اور اپنا گھر چھوڑنا کوئی آسان کام ہے۔ میں نے انہیں منع کر دیا۔
ہماری بات چیت کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ اب تو اتنی بے تکلفی ہو گئی تھی کہ وہ لوگ مجھے اپنے گھر کا ہی فرد سمجھنے لگے تھے۔ ہمارے درمیان ویڈیوز اور تصاویر کا تبادلہ معمول تھا۔ میں نے ان کے گھر ہونے والی پارٹیوں کی ویڈیوز دیکھیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی ماریہ کی سالگرہ کی ویڈیو بھی مجھے دکھائی۔ ماریہ کی آٹھویں سالگرہ کی۔ چھوٹی بیٹی کا نام انجیلینا تھا۔ سالگرہ پر کافی لوگ انوائٹڈ تھے۔ سب ہی ننگے تھے لیکن مجال ہے کسی مرد کا لن کھڑا ہو۔ لنڈ کو تو وہ لوگ ایسے سمجھتے تھے جیسے ہاتھ پاؤں ہو۔ میں تو ان مردوں کی قوت خود ارادی پر حیران تھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتنی خواتین کی موجودگی میں بھی لنڈ کھڑا نہیں ہو رہا۔ پاکستان کا سوچتی تو ہنسی آ جاتی کہ یہاں تو لگتا ہے مردوں کا لنڈ سوتا ہی نہیں۔ برقعے میں بھی کسی کو دیکھ کر نظروں سے ایکسرے کر لیتے ہیں۔ میں نے بھی آخر کار پوچھ ہی لیا ڈیوڈ سے۔ جولیا شاید کچن میں مصروف تھی۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے تو لگتا ہے کہ نیوڈسٹ مردوں کے لنڈ شاید کھڑا ہونا بھول ہی گئے ہیں۔ ڈیوڈ نے میری بات پر قہقہہ لگایا اور کہنے لگا کہ یہ بات نہیں۔ دراصل اب ننگے لوگوں میں رہنے کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ واقعی لنڈ سویا ہی رہتا ہے بلکہ کئی مرتبہ تو بچیاں لنڈ پکڑ کر کھیلنا شروع کر دیتی ہیں لیکن میرا لنڈ کھڑا نہیں ہوتا۔ شاید یہ نیوڈسٹ میں قدرتی طاقت ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ پھر سیکس کیسے کرتے ہو۔ رات کو بھی لنڈ کھڑا ہوتا ہے یا نہیں۔ اب جولیا بھی آ گئی تھی۔ کہنے لگی ان کا لنڈ کھڑا کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ طریقہ بلو جاب ہے۔ بلو جاب کا تو مجھے اچھی طرح سے پتہ تھا۔ لنڈ منہ میں لے کر چوسنا۔ اتنی پورن فلمیں دیکھ چکی تھی۔ ویسے آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے میں اتنی بے باکی سے لنڈ کی باتیں کیسے کر لیتی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود اپنے آپ پر حیران تھی کہ مجھے ہو کیا گیا ہے۔ کہاں میں ایک مشرقی ناری تھی جسے شرم و حیا کے زیور سے مالامال کیا گیا تھا اور کہاں اب ننگی ہو کر غیر مرد سے باتیں۔ باتیں بھی ایسی کہ کسی پاکستانی لڑکی کو پتہ چلے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں لیکن میرے لئے یہ سب نارمل تھا۔ امریکہ اور پاکستان کے ٹائم ڈفرینس کی وجہ سے میں جب ان سے بات کرتی تو یہاں رات کو وہاں صبح ہوتی۔ کبھی یہاں صبح ہوتی تو وہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے ہوتے۔ ویسے میں نے اپنا ظاہری حلیہ ویسا ہی رکھا ہوا تھا۔ کالج مکمل عبایا پہن کر اور نقاب کر کے جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو میں یہ سوچ کر گرم ہو جاتی تھی کہ لوگ میرے بارے میں سمجھتے ہیں کہ کتنی نیک ہوں میں۔ پردے کا کتنا خیال رکھتی ہوں۔ کالج میں بھی سب نمازیں نہیں چھوڑتی۔ جبکہ اندر سے میں کتنی گندی ہو گئی ہوں۔ تنہائی میں پورن فلمیں دیکھتی تھی اب تنہائی میں ننگی ہو کر انگریزوں سے باتیں کرتی ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میری تو چوت گیلی ہونے لگتی تھی۔ گھر آ کر کبھی کبھی تو اتنی گرم ہو جاتی تھی کہ گھر آتے ساتھ کمرے میں بند ہو کر فنگرنگ نہ کر لوں، سکون نہیں آتا تھا۔ یہ علیحدہ مصیبت تھی کہ پاکستان میں سیکس ٹوائز نہیں ملتے۔ جولیا نے مجھے اپنی ٹوائز کلیکشن دکھائی تھی۔ اس کے پاس کم از کم بھی دس ڈلڈو تھے۔ وائبریٹر والے۔ مجھے کبھی کبھی اتنا رشک آتا تھا کہ دل کرتا تھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امریکہ چلی جاؤں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کروں۔
سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آیا تو گھر والوں نے میرے رشتے کی تلاش شروع کر دی۔
ایک مرتبہ بڑی عید کے موقع پر امی ابو حج کرنے کیلئے گئے تھے۔ بڑے بھائی اور بھابھی بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔ باقی دونوں بھائی عید کے موقع پر اپنے سسرال چلے گئے۔ میں گھر میں اکیلی رہ گئی۔ یہ پہلا موقع تھا میرے لئے گھر میں بالکل تنہائی کا۔ میرا مطلب ہے نیوڈزم سے واقفیت کے بعد پہلا موقع تھا۔ گھر میں تو کوئی تھا نہیں کہ جلدی اٹھ کر کوئی سویاں بنانی پڑتیں۔ جب سے ننگی سونا شروع کیا تھا تب سے مجھے بہت گہری نیند آتی تھی۔ ایسے بے خبر سوتی تھی جیسے ننھے بچے سوتے ہیں۔ صبح دیر سے اٹھی۔ دونوں بھائی عید کی نماز پڑھ کر اپنی بیویوں کے ہمراہ سسرال جا چکے تھے۔ انہوں نے تو قربانی بھی وہیں کرنی تھی۔ میں پہلے تو کپڑے پہن کر کمرے سے باہر آئی۔ جب مکمل تسلی ہو گئی کہ گھر میں میرے علاوہ کوئی نہیں تو کپڑے اتار کر اپنے کمرے میں پھینکے اور ننگی ہی کمرے سے باہر آ گئی۔ اف۔ کیا احساس تھا۔ پہلی بار مکمل ننگی گھر میں اکیلی۔ اف اف اف۔ میں تو اتنی ایکسائٹڈ تھی کہ خوشی کے مارے میرے آنسو نکل آئے۔ یہ بتا دوں کہ ہمارا گھر لاہور میں اچھرہ کے علاقے میں ہے۔ تین منزلہ گھر ہے۔ جو لوگ اچھرہ سے واقف ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہو گا کہ اس علاقے کا بازار کافی مشہور ہے اور وہاں رش بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ بازار کے ارد گرد اونچی اونچی بلڈنگز ہیں جن میں فلیٹ کرائے پر دئے گئے ہیں۔ ان میں ذیادہ تر ہاسٹلز ہیں جن میں طالبعلم ہی رہائش پذیر ہیں۔ ہمارا گھر اچھرہ بازار سے اند آ کر بائیں طرف تھا۔ گھر کے بالکل مخالف سمت میں لڑکوں کا ہاسٹل تھا۔ اس کے ساتھ اور بھی ہاسٹل تھے۔
خیر، میں ننگی ہو کر گھر میں گھومتی پھر رہی تھی۔ اگرچہ موسم اتنا گرم نہیں تھا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ لیکن پھر بھی جوش میں مجھے سردی کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ میں پاگلوں کی طرح گھر میں گھومتی پھر رہی تھی۔ امی ابو کے کمرے میں جا کر ان کے بیڈ پر ننگی لیٹ گئی۔ بیڈ پر جسم رگڑتی رہی۔ کوئی دیکھ لیتا تو مجھے پاگل ہی سمجھتا۔ حرکتیں ہی ایسی کر رہی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ اب نہا لینا چاہیے۔ میرے کمرے میں بھی باتھ روم تھا لیکن میں امی ابو کے کمرے والے باتھ روم میں ہی نہانے چلی گئی۔ دروازہ بند نہیں کیا۔ میں تو ایسے خوش تھی جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہو۔ ابھی نہانے کیلئے باتھ روم میں گھسی ہی تھی کہ فون کی آواز آئی۔ فون تو میرے کمرے میں ہی پڑا تھا۔ فون اٹھایا تو امی کا فون تھا۔ انہوں نے مجھے عید کی مبارکباد دی اور خیریت پوچھ کر تھوڑی اور باتیں کر کے فون بند کر دیا۔ دراصل ایسی سوچ مجھے بہت گرم کرتی تھی کہ اگر کسی کو پتہ چل جائے کہ میں گھر میں کیا کر رہی ہوں تو کیا ہو گا۔ میں فون لے کر امی کے بیڈ پر ہی لیٹ کر ان سے باتیں کر رہی تھی۔ میرا تو خیال ہے کہ امی خود بھی کبھی اپنے بیڈ پر ننگی نہیں لیٹی ہوں گی کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ پرانے زمانے کے لوگوں میں شرم اتنی تھی کہ سیکس بھی پورے ننگے ہو کر نہیں کرتے تھے بلکہ صرف شلوار نیچے کر کے ضرورت پوری کر لیتے تھے۔ مجھے یہ سب بہت عجیب لگتا تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے نا۔ سیکس بھی اگر کوئی انجوئے نہ کر سکے تو زندگی کا کیا فائدہ۔ ہیں نا۔ میں نے تو سوچا ہوا تھا کہ جس سے بھی میری شادی ہوئی میں اسے نیوڈزم کی طرف ضرور لے آؤں گی اور بھرپور سیکس لائف گزاروں گی۔
اوہو۔ بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ میں بتا رہی تھی کہ امی کا فون آیا تھا۔ ان سے بات کر کے فون بند کیا اور باتھ روم کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ فون پھر بج اٹھا۔ اب کی بار فون کی سکرین دیکھ کر میرا دل جھوم اٹھا۔ جولیا کی ویڈیو کال تھی۔ میسنجر پر۔ میں نے ریسیو کی۔ حال چال پوچھ کر میں نے اسے بتایا کہ میں نہانے جا رہی ہوں۔ فلوریڈا میں اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا۔ جولیا اور ڈیوڈ دونوں بستر میں گھسے ہوئے تھے۔ پاکستان میں تو دن گیارہ بجے کا وقت تھا۔ جولیا نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ سونے لگے تھے، ڈیوڈ نے کہا کہ سونے سے پہلے شازیہ سے بات کر لیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں فون باتھ روم میں ہی لے جاتی ہوں۔ نہاتے نہاتے ان سے بات بھی ہو جائے گی۔ میں نے فون باتھ روم کے روشندان میں اس طرح سے سیٹ کر دیا کہ ان دونوں کو میں نہاتے ہوئے پوری طرح نظر آتی رہوں۔ یہاں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب ہم سے کتنا آگے ہے ٹیکنالوجی میں جس کی وجہ سے وہاں کے رہائشیوں کی زندگی کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہم لوگ ان سے کم از کم بھی بیس سال پیچھے ہیں۔ جولیا اور ڈیوڈ نے اپنے فون کو کمرے کی دیوار پر آویزاں ایل ای ڈی ٹی وی سے منسلک کر رکھا تھا اور جب بھی وہ لوگ مجھے اپنے کمرے سے کال کرتے تو میں انہیں ٹی وی سکرین پر ہی نظر آتی تھی۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے گھر کے تمام کمرے ساؤنڈ پروف بنوائے تھے تاکہ آواز باہر نہ نکلے۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے یہاں اول تو ساؤنڈ پروف کمروں کا تصور ہی نہیں ہے اور اگر گھر کا کوئی فرد بنوانا بھی چاہے تو باقی اس کی مخالفت پر اتر آئیں گے کہ بھئی تمہاری کونسی ایسی پرائیویٹ چیز ہے جسے چھپانا چاہتے ہو۔ اب بندہ پوچھے کہ شادی کے بعد ہزاروں باتیں ہوتی ہیں، کام ہوتے ہیں میاں بیوی کے درمیان۔ کمرہ سے باہر آواز جانے کا ڈر ہو تو بیچارے سیکس بھی ڈرتے ڈرتے ہی کرتے ہیں۔ میں خود کئی بار رات کو پانی پینے کیلئے اٹھی تھی تو بھائی کے کمرے سے بیڈ ہلنے کی چوں چوں کی آوازیں آتی تھیں۔ مجھے تو آوازیں سن کر اور یہ سوچ کر کہ اندر میا ہو رہا ہے، مزہ آتا تھا لیکن ان بیچاروں کیلئے تو یہ پریشانی ہی تھی نا۔
دیکھیں، میں ایک بار پھر سے موضوع سے ہٹ گئی۔ میں کہہ رہی تھی کہ میں نے شاور کھولا اور نہانا شروع کیا۔ بدن پر پانی گرنے لگا اور میں اپنے ہاتھوں سے بدن کو مسلنے لگی۔ جولیا اور ڈیوڈ مجھے اپنے ساٹھ انچ کی سکرین والے ٹی وی پر نہاتا دیکھ رہے تھے۔ میں نہاتے ہوئے ان سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی لیکن میری نظریں موبائل سکرین کی طرف نہیں تھیں۔ اس وجہ سے کہ میں شاور میں تھی اور منہ پر پانی بہنے سے آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ وقفے وقفے سے سکرین پر نظر ڈال لیتی تھی۔ جولیا اور ڈیوڈ دونوں ننگے چپکے ہوئے تھے ایک دوسرے سے۔ جولیا ہی مجھے اپنے دن کا احوال بتا رہی تھی۔ ڈیوڈ تو چپ تھا بالکل۔ اس وقت تو مجھے پتہ نہیں چلا کہ ڈیوڈ کیوں چپ کر کے لیٹا ہوا ہے لیکن اچانک جولیا کی حیرت بھری آواز سن کر میں چونک گئی۔ میں اس وقت تک اپنے جسم پر صابن اور بالوں میں شیمپو لگا چکی تھی۔ شاور بند تھا اس لئے ان کی آواز بھی واضح سنائی دے رہی تھی۔ جولیا دراصل اس بات پر حیران ہو رہی تھی کہ لیٹے لیٹے ڈیوڈ کا لنڈ تن گیا تھا۔ حیران ضرور تھی وہ لیکن غصے میں نہیں تھی بالکل بھی۔ مجھے تو اس بات کا تجربہ نہیں تھا کہ اگر کسی مرد کا لنڈ میرے ننگے بدن کو دیکھ کر کھڑا ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے یا کیا کہنا چاہئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مجھے دل میں بہت اچھا لگا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ میرے بدن میں کوئی نہ کوئی ایسی بات تو ہے جو کسی اور کے بدن میں نہیں۔ تو اور کیا۔ کیا ڈیوڈ روزانہ اپنی بیوی جولیا کو ننگی نہیں دیکھتا تھا۔ جولیا بے انتہا سیکسی خاتون تھی۔ جولیا کے علاوہ بھی ڈیوڈ نے بارہا ننگی خواتین کو مختلف کاموں میں مشغول دیکھا تھا۔ ساحل سمندر پر نہاتے، گھر میں پارٹیوں میں ہنستے، سوئمنگ پول میں نہاتے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آج تک تو کبھی اس کا لنڈ بقول جولیا کے کھڑا نہیں ہوا تھا بلکہ جولیا تو کہتی تھی کہ جب تک وہ پانچ دس منٹ تک لنڈ چوسے نا تو لنڈ کھڑا نہیں ہوتا ڈیوڈ کا۔ میرے اور جولیا دونوں کے ذہن میں شاید ایک ہی بات تھی۔ میں تو یہ بھی سوچ رہی تھی کہ ڈیوڈ کو کیا ہو گیا اچانک۔ ننگی تو وہ مجھے بھی پہلے دیکھ چکا تھا۔ اب آخر کیا خاص بات تھی۔ میری سوچوں کا تسلسل جولیا کی آواز سے ٹوٹ گیا۔ وہ مجھے کہنے لگی کہ شازیہ تمہارے جسم میں جادو ہے۔ ڈیوڈ جیسے ٹھنڈے مرد کے لنڈ کو جگا دیا۔ اس بات پر میں ہنسنے لگی۔ ڈیوڈ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی۔ اس نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا لیکن اس کا لنڈ بالکل ٹائٹ ہو گیا تھا۔ لیٹے ہوئے بالکل سیدھا کھڑا ہوا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک بات آئی۔ یقیناً ڈیوڈ مجھے نہاتے دیکھ کر ہی جنسی طور پر بیدار ہو گیا ہو گا۔ میں تو بات کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔ شاید جولیا بھی سمجھ گئی تھی لیکن اس نے اس بات کا اظہار کرنے کی بجائے لنڈ پکڑنے کو ترجیح دی۔ اف۔ ایک تو یہ سوچ کہ میری وجہ سے ڈیوڈ کا لنڈ کھڑا ہو گیا اور اوپر سے میرے سامنے جولیا نے لنڈ پکڑ بھی لیا۔ میری تو حالت خراب ہونے لگی تھی۔ میری شاور کے بہتے پانی میں کھڑے ہوئے صابن دھونے کیلئے جسم پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ پتہ ہی نہ چلا کہ کب صابن صاف ہو گیا اور کب میرا ایک ہاتھ خود بخود نیچے چوت پر چلا گیا اور دوسرا ہاتھ مموں پر۔ اف اف اف۔ میں تو پاگل ہی ہو گئی تھی۔ وہ منظر یاد کر کے اب بھی میری چوت گیلی ہونے لگی ہے۔ میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں جذبات سے۔ ادھ کھلی آنکھوں سے موبائل کی سکرین دیکھ رہی تھی جہاں جولیا نے اب ڈیوڈ کا لنڈ چوسنا شروع کر دیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جولیا اور ڈیوڈ نے میرے سامنے کوئی ایسی حرکت کی تھی۔ ایک دوسرے سے لپٹتے تو میں نے کئی بار انہیں دیکھا تھا اور چہرے پر بوسے بھی وہ لوگ لیتے رہتے تھے لیکن لنڈ چوسنا تو ایک ایکسٹریم بات تھی۔ میرا گرم ہونا بالکل قدرتی تھا۔ اب تک پورن فلموں میں ہی ایسے سین دیکھے تھے۔ میں تو انہیں دیکھ کر ہی گرم ہو جاتی تھی۔ لائیو سین کی تو بات ہی الگ تھی۔ میں اب جذبات میں مدہوش ہو چکی تھی۔ مسلسل اپنے ممے مسل رہی تھی اور چوت میں فنگرنگ کر رہی تھی۔ جسم پر شاور سے پانی بھی بہتا جا رہا تھا۔ سکرین پر بھی نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہی تھی جہاں جولیا ایسے لنڈ چوس رہی تھی جیسے لالی پاپ یا پھر آئسکریم چوستے ہیں۔ شاید جولیا کے پیریڈز چل رہے تھے ورنہ ایسے تنے ہوئے لنڈ کے ہوتے ہوئے بھی سیکس نہ کرنا تو پھر بے وقوفی ہی ہے نا۔ میں اور ڈیوڈ دونوں ہی جذبات کی شدت محسوس کر رہے تھے۔ جولیا لنڈ چوسنے میں اتنی مہارت رکھتی تھی کہ اسے لنڈ چوستے دیکھ کر ہی میں نے دل میں پکا عہد کر لیا کہ جو بھی ہو جولیا سے اکیلے میں بات کر کے لنڈ چوسنا ضرور سیکھوں گی۔ خیر، پھر ہوا یوں کہ ڈیوڈ اور میں دونوں ایک ہی وقت کلائمکس پر پہنچے اور ڈسچارج ہو گئے۔ ڈسچارج ہوتے وقت اس کے منہ سے بھی آہ کی آواز خارج ہوئی۔ میں تو بہت زور سے چلائی تھی۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ۔

12