1 لنڈ کی پجارن

Story Info
Prostitute describes her strange customer
3.7k words
2.72
2.5k
0
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

میرا نام لنڈ کی پجارن کیسے پڑا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے. میرا اصل نام صغراں بی بی ہے اور میں لاہور کی مشہور زمانہ بلکے بدنام زمانہ مارکیٹ ہیرا منڈی میں اپنا جسم فروخت کر کے پیسے کماتی ہوں لیکن میرا تعلق لاہور سے نہیں بلکہ میانوالی کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہے. بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تعلق تھا تو زیادہ مناسب ہو گا کیوں کہ میرے گھر سے بھاگنے کے بعد میرے گھر والوں نے مجھ سے ہر قسم کا تعلق ختم کر دیا تھا. میری عمر چالیس برس ہے اور میں مختلف لوگوں کے بستر کی زینت بننے کے بعد بیس سال کی عمر سے ہیرا منڈی میں جسم فروشی کر رہی ہوں. یہ تو تھا میرا مختصر تعارف. پریشان نہ ہوں. میں آپکو اپنی دکھ بھری زندگی کی بوریت سے بھرپور داستان نہیں سنانے لگی. صرف ایک قصہ بیان کرنا چاہتی ہوں. ایک عجیب و غریب قصہ جس کی وجہ سے میرا نام لنڈ کی پجارن پڑ گیا.
جب میں نے ہیرا منڈی میں جسم فروشی کا آغاز کیا تو میری نائکہ فرزانہ بی بی تھی. فرزانہ بی بی کے پاس مجھ جیسی پانچ لڑکیاں تھیں. ہم پانچوں میں سب سے خوبصورت میں ہی تھی لیکن باقی چار لڑکیوں کی طرح مجھے رقص نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے میرا استعمال زیادہ تر جسمانی ہی تھا جب کہ باکی چار لڑکیوں سے بھی اگرچہ جسم فروشی کروائی جاتی تھی لیکن نسبتا کم. اکثر ہمارے چکلے میں مجرے کی محافل ہوا کرتی تھیں. کبھی کبھی ہمیں لوگوں کی فرمایش پر ان کے گھر یا کسی اور جگہ بھی بھیجا جاتا تھا.
ان ہی دنوں ایک عجیب گاہگ سے واسطہ پڑا. عام طور پر گاہگ غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور وقت ضایع کیے بغیر مطلب کی بات پر آ جاتے ہیں. آسان الفاظ میں یہ کہ اپنے کپڑے اتار کر مجھے بھی کپڑے اتارنے کا کہتے ہیں. کپڑے اتارنے کے بعد ووہی کام ہوتا ہے جس کا آپ سب کو بخوبی معلوم ہے. اس لئے میں اسکی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی.
عام طور پر ہیرا منڈی میں جسم فروشی کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ گاہگ کو نائکہ سے اجازت لینی ہوتی ہے. اجازت کے بعد اس مرد کو اس کمرے میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں لڑکی پہلے سے موجود ہوتی ہے. اس طریقہ کار کا المیہ یہ ہے کہ اگرچہ لڑکی اپنا جسم فروخت کر رہی ہے لیکن آمدنی کا زیادہ تر حصّہ نائکہ کے پاس چلا جاتا ہے.بہرحال، جس گاہگ کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں وہ بھی اسی طریقے سے گزر کر میرے پاس آیا تھا. جس زمانے کی یہ بات ہے ان دنوں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی اور کیی لڑکیاں زنا کے نتیجے میں حاملہ ہو جاتی تھیں. حمل سے بچنے کے لئے کنڈوم دستیاب تو تھے لیکن گاہگوں کی اکثریت انہیں ناپسند کرتی تھی. دوسرا طریقہ یہ تھا کہ حمل نہ ہونے دینے والی گولیاں کھا لی جایئں. یہ گولیاں بھی بہت مشکل سے ملتی تھیں کیوں کہ مجموعی طور پر ہمارے عوام خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تھے، ہیں اور شاید ہمیشہ ایسے ہی رہیں. خیر، اس منفرد گاہگ میں بہت سی باتیں دوسرے گاہگوں سے مختلف تھیں جن کا ذکر میں آگے چل کر کروں گی. سب سے پہلی اور اچنبھے کی بات میرے لئے یہ تھی کہ یہ گاہگ اپنے ساتھ کنڈوم خود لے کر آیا تھا. بار بار گھگ کہنا مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے اس لئے فرضی نام دے دیتی ہوں. اب سے میں گاہگ کی جگہ شبیر نام استعمال کروں گی.
کمرے میں آنے کے بعد شبیر نے نا صرف مجھ سے میرا نام پوچھا بلکہ حال چال بھی دریافت کیا. باتوں کے درمیان ہی اس نے اپنی جب سے کنڈوم نکال کر میز پر رکھ دیا. میرے لئے تو اسکا باتیں کرنا ہی عجیب تھا کیوں کہ آج تک زیادہ سے زیادہ بات جو کسی گھگ نے مجھ سے کی تھی وہ انہی باتوں پر مشتمل ہوتی تھی جیسے سیکس کے دوران کی جاتی ہیں. مثلن کمر اوپر کرو، ٹانگیں سیدھی کرو وغیرہ وغیرہ. ابھی میں اسکی باتوں پر حیران ہو رہی تھی کہ اس نے کنڈوم نکل لیا. آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ باتیں کرنا اور کنڈوم کوئی ایسی بات تو نہیں کہ جس پر اتنا حیران ہوا جائے. آپ کی سوچ بھی ٹھیک ہے لیکن آج کل کے لحاظ سے. ان دنوں یہ چیزیں حیرانی کا موجب ہی تھیں. شبیر نے کنڈوم میز پر رکھ دیا اور میرے ساتھ چپک کر بیٹھ گیا. اس نے اب تک مجھے ارادتا نہیں چھوا تھا. میں نظریں نیچے کے کسی دلہن کی طرح شرما رہی تھی. سچی بات تو یہ ہے کہ شرم وارم بس اب نام کی ہی تھی لیکن گاہگوں کو لبھانے کے لئے شرمانے کی اداکاری کرنی پڑتی تھی. شرم دیکھ کر گاہگ کچھ زیادہ ہی خوش ہوتے تھے. شبیر نے پتلون اور شرٹ پہن رکھی تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ اس کا تعلق یقیناً کسی مالدار گھرانے سے تھا. شبیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر میرا ہاتھ نرمی سے تھام لیا. اس کے ہاتھ کی گرفت مجھے مضبوط تو لگی لیکن اس میں اپنائیت کا احساس بھی تھا. میرا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی پتلون کی زپ پر رکھ دیا. میں جسم فروشی کے جتنے آداب سے واقف تھی، ان میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ اگر کوئی گاہگ آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی پتلون پر رکھ دے تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے.
آج تک میں نے جتنے بھی گاہگ بھگتاے تھے ان میں اکثریت تماش بینوں کی ہی تھی جو نشے میں ہوتے تھے لیکن شبیر مجھے اپنے مکمل ہوش و حواس میں دکھا. میرے لئے یہ پہلا تجربہ تھا کہ کوئی پڑھا لکھا تہذیب یافتہ گاہگ ملا. اس سے پہلے میں گاہگوں کو لبھانے کے لئے شرمانے کی اداکاری کیا کرتی تھی اور اس اداکاری سے متاثر ہو کر کی گاہگ مجھے پیسے بھی دے دیا کرتے تھے لیکن جب شبیر نے میرا ہاتھ اپنی پتلون کی زپ پر رکھا تو میری ساری اداکاری دھری کی دھری رہ گیی اور مجھے سچ مچ شرم آنے لگی. یہ بات نہیں تھی کہ لنڈ میرے لئے کوئی نیی چیز تھی اور میں لنڈ دیکھنے سے گھبرا رہی تھی. میں تو اتنے لنڈ دیکھ چکی تھی کے مجھے ایسا لگتا تھا کے دنیا میں جتنی اقسام کے لنڈ ہیں، میں سب کو دیکھ چکی ہوں. ظاہر ہے، جسم فروشی کر کر کے اتنا کانفیڈنس تو آنا ہی تھا نہ. بات دراصل یہ تھی کہ لنڈ بیشک میرے لئے اجنبی چیز نہیں تھی لیکن لنڈ سے میرا تعلق بس اتنا ہی تھا کہ یہ میری چوت میں جائے گا تو مجھے پیسے ملیں گے. اس سے زیادہ اہمیت میری نظر میں نہیں تھی لنڈ کی. ویسے بھی جب گاہگ ایسے ہوں کہ انہیں سواے چودنے کے کسی کام سے مطلب ہی نہ ہو تو پھر یہی ہونا تھا. آپ شاید حیران ہوں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ باوجود جسم فروشی کہ میں نے آج تک لنڈ کو اپنے ہاتھوں سے چھوا نہیں تھا. اب جب کہ شبیر کی پتلون کی زپ پر ہاتھ رکھا تو میری شرم فطری تھی. شبیر نے بھی لگتا ہے پتلون کے نیچے زیر جامہ پہننے کا تکلف نہیں کیا تھا کیوں کہ مجھے پتلون کے اندر لنڈ کا لمس محسوس ہو رہا تھا. میری نظریں زمین پر گڑی تھیں. شبیر نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا اور ہلکا سا دبایا جس سے میرا شک یقین میں بدل گیا. اس نے واقی کوئی انڈرویر نہیں پہن رکھا تھا. میں سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں یہ چاہتا کیا ہے اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے. مجھے اپنی نائکہ پر بھی غصہ تھا کہ ایسا گاہگ میرے پاس ہی کیوں بھیجا. شبیر کو تو شاید مزہ آ رہا تھا کیوں کہ اس کا لنڈ اب تنتا جا رہا تھا. شبیر نے بھی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ میں شرما رہی ہوں. ٹیب ہی اس نے تھوڑا سا آگے ہو کر میری ٹھوڑی کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر میرے چہرے کا رخ اپنی جانب کیا اور کچھ کہے بغیر میری آنکھوں میں دیکھنے لگا. سچی بات ہے کہ میں کوئی کنواری تو تھی نہیں اور اتنے مردوں کی ہاؤس بھجا چکی تھی کہ گنتی بھی یاد نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شبیر کی حرکتوں سے مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے یہ میری سہاگ رات ہو اور میں پہلی بار چدنے لگی ہوں. میں نے بس ایک لمحے کے لئے اپنی نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور وہ ایک لمحہ ہی کافی تھا اس بات کا احساس دلانے کے لئے کہ یہ تجربہ میری زندگی کے منفرد ترین تجربات میں سے ایک ہو گا.
یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چلا. ظاہر ہے کہ ہر جسم فروش عورت کے ساتھ گذرتے وقت کی قیمت ہوتی ہے. اگر قارئین میں سے کوئی ہیرا منڈی جا چکا ہے تو اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گی کہ جتنا زیادہ وقت کسی خاتون کے ساتھ گزاریں، اس کی نائکہ کو اتنی ہی زیادہ ادائگی کرنی پڑتی ہے. پتہ نہیں شبیر کے دل میں یہی بات تھی یا کوئی اور لیکن اس نے مزید وقت ویسٹ کے بغیر اپنا لنڈ زپ کھول کر باہر نکال لیا. میں نے لاکھ کوشش کی کہ اپنی نظریں زمین کی طرف ہی رکھوں لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر لنڈ پر نگاہ ڈال ہی لی. میں خود بھی حیران تھی کہ بھلا اس لنڈ میں ایسی کیا خاص بات تھی جو میں اس قدر جھجھک رہی تھی. نگاہ ڈالنے پر مجھے یہ لنڈ بھی ایسا ہی لگا جیسے مردوں کے لنڈ ہوا کرتے ہیں. لمبائی تقریبن چھ انچ اور چوڑائی بھی نارمل یانی ایک سے ڈیڑھ انچ کے درمیان. لنڈ کا جایزہ کے کر میں یہ سوچ رہی تھی کہ اب یقیناً مجھے ننگی ہونا پڑے گا اور پھر وہی کام جو ہوتا ہے یانی چدائی. شبیر نے اپنا ایک ہاتھ میری گردن کی طرف بڑھایا جس سے میں یہ سمجھی کہ شائد گردن سے پکڑ کر مجھے اپنی جانب کھینچ کر چومنا چاہتا ہے لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجھے گردن سے پکڑ کر میرا منہ نیچے اپنے لنڈ کی جانب جھکایا. میں نے مزاحمت کی. یہ بات یاد رہے کہ یہ آج سے بیس سال پہلے کا قصّہ ہے جب نہ تو موبائل فون ہوا کرتے تھے نہ ہی ٹیلی ویژن اتنے عام تھے. اب تو ہر کسی کے پاس سمارٹ فون ہیں اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ہر کسی کی پہنچ ہر ویب سائٹ تک ہے لیکن تب ایسا نہیں تھا. اب تو منہ سے لنڈ چوسنا ایک نارمل چیز ہے لیکن تب سیکس کو سیکس تک ہی محدود رکھا جاتا تھا. لنڈ کے دو ہی مقصد تھے. پیشاب اور چدائی. میری مزاحمت ان حالات میں قدرتی تھی بلکہ زیادہ مناسب تھی کیوں کہ جس قسم کی گاہگ میں بھگتا چکی تھی ان کے تو اجسام سے اٹھنے والی بو ہی نہ قبل برداشت ہوتی تھی، لنڈ چوسنا تو بہت دور کی بات ہے. یہ بات نہیں کہ میں اپنے آپ کو بہت پاک صاف سمجھتی تھی. ہر گز نہیں. میں تو اپنے آپ کو بہت نجس سمجھتی تھی کیوں کے جس قسم کے کام میں مشغول تھی وہ تھا ہی نجس لیکن پھر بھی میں نے آج تک یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی گاہگ کسی دن مجھے سے اپنا لنڈ چسواے گا.
میری مزاحمت دیکھ کر شبیر نے برا نہیں منایا بلکہ میرے کپڑے اتارنے لگا. کچھ ہی منٹوں میں اس نے مجھے ننگی کر دیا. میں نے دل میں شکر ادا کیا کہ چلو جان چھوٹی لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ آج کا دن میرے لئے سرپرائز کا دن ہے. شبیر نے مجھے ننگی کر کے بستر پر لیٹنے کا کہا. میں لیٹ گی. مجھے اب یہ توقع تھی کہ وہ خود بھی ننگا ہو گا لیکن بجے اپنے کپڑے اتارنے کے اس نے آگے بڑھ کر اپنا منہ میری ٹانگوں کے درمیان رکھ دیا اور میری چوت کو چومنے اور چاٹنے لگا. اب کی بار تو مجھے حیران ہونے کا بھی موقع نہ ملا تھا کیوں کہ شبیر کے ہونٹ چوت سے ٹچ ہوتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گیی تھی. اب یہ بات سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا کہ یہ غلط ہے یا ٹھیک. شبیر نے بھی تو صرف باہر سے چوت کے ہونٹ چاٹنے پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ چوت کے اندر زبان داخل کر کے زبان کو ایسے گھما رہا تھا جیسے چوت کے اندر لیس دار مادہ اسے بہت لذیذ لگ رہا ہو اور وہ اس کا ایک ایک قطرہ چاٹ لینا چاہتا ہو. میرا تو یہ حال تھا کہ جذبات کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی. مجھے خود بھی پتا نہ چلا کہ کب میرے ہاتھ اس کے سر پر جا ٹکے اور اب میں اس کے سر کو چوت میں دباے چلے جا رہی تھی.
آج تک اتنے لنڈ اپنی چوت میں لینے کے باوجود جو مزہ مجھے شبیر سے چوت چٹوانے میں آ رہا تھا، وہ آج تک کبھی نہ آیا تھا. چکلے میں ہر طرح کے گاہگ آیا کرتے تھے لیکن اکثر گاہگ صرف اپنی ہی پرواہ کرتے تھے. میرا مطلب یہ ہے کہ کسی نے بھی آج تک یہ پرواہ نہ کی تھی کہ چدائی میں مجھے بھی مزہ آ رہا ہے یا نہیں. انہیں بس یہ ہی فکر تھی کہ اپنے مزے پورے کریں. اسی قسم کے لوگوں سے چد چد کر میری تو چدائی میں دلچسپی ہی ختم ہی کر رہ گیی تھی اور میں بس دکھاوے کے لئے اپنے منہ سے ایسی آوازیں نکالا کرتی تھی جیسے مزے لے رہی ہوں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ آوازیں نکلنے کے دو مقصد تھے ایک گاہگ کی جب سے پیسے نکلوانا اور دوسرا یہ کہ گاہگ جلدی سے ڈسچارج ہو جائے اور میری جان چھوٹے. سچی بات تو یہ ہے کہ میری چوت اب گیلی ہی بہت مشکل سے ہوتی تھی. جن لوگوں کو سیکس کا تجربہ ہو چکا ہے وو اچھی طرح جانتے ہیں کہ لڑکی/عورت میں جب جنسی جذبات بیدار ہوں تو قدرتی طور پر اس کی چوت گیلی ہو جاتی ہے. مروجہ طریقہ تو یہی ہے کہ سیکس سے پہلے بوس و کنار کیے جایئں. چوت گیلی کیے بغیر سیکس کرنا عورت کے لئے مشقت ہوتی ہے. ایک تو لنڈ گھسنا ہی اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ٹل یا کوئی اور لبریکنٹ لگانا پڑتا ہے. لنڈ اندر چلا بھی جائے تو مرد کو تو شائد مزہ آ جائے لیکن عورت بیچاری بس تکلیف ہی سہتی ہے. اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جسم فروشی کوئی آسان کام نہیں ہے. لوگ تو یہی سمجھتے ہیں کہ جسم فروش عورت مزے بھی لیتی ہے اور پیسے بھی جبکہ حقیقت اس کے متضاد ہے. اورل سیکس کا رواج انگریزوں کے ہاں تو شائد کف عرصے سے ہے لیکن پاکستان میں یہ رواج انٹرنیٹ کے عام ہونے کے بعد ہی آیا ہے. آج اکیسویں صدی میں بھی پاکستانی گھریلو خواتین لنڈ چوسنے کو برا اور غلیظ کام سمجھتی ہیں تو اندازہ کیجئے کہ بیس سال پہلے تو اسکا تصور بھی ممکن نہیں تھا. ایسے حالت میں شبیر کا میری چوت کو چاٹنا مرے لئے تو کسی لاٹری سے کم نہیں تھا اور اپنی پروفیشنل لائف میں پہلی بار میں اس قدر لطف اندوز ہو رہی تھی کہ محض دو منٹ کے اندر ڈسچارج ہو گیی. ویسے تو میرے گاہگوں میں سے کسی کا بھی سٹامنہ اتنا نہیں تھا کہ پانچ منٹ سے زیادہ مجھے چود سکتا لیکن یقین کیجئے کہ آج تک کبھی دوران سیکس میں ڈسچارج نہیں ہی تھی چکلے میں آنے کے بعد. جب کبھی میرے جنسی جذبات جوش مارتے تھے تو تنہائی میں اپنی انگلی استعمال کر کے ڈسچارج ہو جاتی تھی. ڈسچارج تو میں ہو گیی تھی اور مزے بھی خوب لے لئے تھے لیکن اب میں سوچ رہی تھی کہ شبیر نے جو میرے لئے کیا ہے اس کے بدلے میں اس کا لنڈ نہ چوسنا احسان فراموشی ہی ہو گی.
بدکار، فاحشہ، طوائف، گشتی، رنڈی اور ان کے علاوہ بے شمار الفاظ سے میرے جیسی عورتوں کو مخاطب کیا جاتا ہے. میں ان الفاظ کو اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہوں لیکن اگر آپ ان سب کو برا بھی سمجھیں تو میں مانتی ہوں کہ یہ سب خامیاں میرے اندر موجود ہیں لیکن میں احسن فراموش ہر گز نہیں ہوں. اسی لئے میں نے شبیر سے چوت چٹوانے کے بعد خود سے ہی اس کا لنڈ پکڑ کر منہ میں ڈال دیا. یہ بات میں مانتی ہوں کہ بیشک شبیر نے مجھے لذت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا لیکن پھر بھی میرے دل میں کسی قدر ہچکچاہٹ تھی. جس لنڈ سے وہ پیشاب کرتا تھا اسے اپنے منہ میں خوشی سے لینا میرے لئے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا. جس طرح کڑوی گولی کو پانی کے ساتھ جلدی سے نگلا جاتا ہے، بلکل اسی طرح سے میں نے بھی لنڈ کو جلدی سے منہ میں ڈالا اور پھر فورن ہی بھر نکال دیا. یہ بتاتی چلوں کہ شبیر کا لنڈ لمبائی میں کچھ زیادہ نہیں تھا. چھ انچ لمبی اور سوا انچ چوڑائی. پہلی بار منہ میں لینے سے تین انچ کے قریب لنڈ منہ میں گیا. میں نے لنڈ منہ میں لے کر نکل تو دیا لیکن اس عمل نے میرے سارے وہم اڑا کر رکھ دیے.میں اس غلط فہمی میں تھی کہ لنڈ سے گندی بدبو اٹھتی ہے پیشاب کی لیکن لنڈ کے اتنے قریب چہرہ اور ناک ہونے پر بھی مجھے پیشاب کی بو نہیں آیی بلکے ایک مختلف سی بو آ تھی تھی جسے میرے ذہن نے بدبو قرار دینے سے انکار کر دیا کیوں کہ نتھنوں میں گھستی اس بھینی بھینی بو کا میرے ذہن اور رویے پر خوشگوار اثر ہوا تھا. دوسری بڑی غلط فہمی یہ تھی کہ لنڈ پر پیشاب لگا ہو گا اور منہ میں لینے سے یہ پیشاب منہ کے راستے سے پیٹ میں جا سکتا ہے. لنڈ منہ میں لینے پر ان چند لمحوں میں میری زبان بھی ٹچ ہی تھی لیکن مجھے جو زائقہ محسوس ہوا وہ بھی زبان کو انتہائی خوشگوار لگا. نمکین سا زائقہ تھا. یہ بات نہیں کہ مجھے پیشاب کے ذائقے کا پہلے سے پتہ تھا، ہو سکتا ہے وہ زائقہ پیشاب کا ہی ہو لیکن مجھے تو اچھا لگا تھا. اچھا کہنا ویسے زیادتی ہے کیوں کہ جو میرے جذبات تھے، ان کے مطابق تو میرا دل کہتا تھا کہ اگر پیشاب کا زائقہ اتنا اچھا ہے تو میں شبیر کا پیشاب بھی پینے کو تیار ہوں. شائد یہ میرے جذبات کا طلاطم ہی تھا جس نے مجھے پھر سے شبیر کا لنڈ چوسنے پر مجبور کر دیا. میں نے نرمی سے لنڈ تھاما. شبیر کو بھی میرے منہ کا لمس اپنے لنڈ پر اچھا لگا تھا اسی لئے لنڈ جو پہلی باری میں قدرے نرم تھا، اب مکمل تناؤ کی حالت میں تھا. مجھے بھی اتنا سخت لنڈ پکڑ کر اچھا لگ رہا تھا. ویسے میں حیران بھی تھی کہ ابھی کیسا بےجان سا تھا اور اب دیکھو لوہے کی طرح سخت. اف.
خیر، میں نے آنکھیں بند کر کے آہستہ آہستہ لنڈ اپنے منہ میں داخل کرنا شروع کیا اور جتنا جا سکتا تھا اتنا اندر کر لیا. ظاہر ہے میرے منہ میں اتنی گنجایش تو تھی نہیں کہ پورے لنڈ کو اپنے اندر سما سکے. تقریبن تین انچ یا کچھ زیادہ حصّہ لنڈ کا اپنے منہ میں لیا اور اپنی زبان اور ہونٹوں کی گرفت اس پر تنگ کر دی. میرا دل کرتا تھا کہ بس ایسے ہی لنڈ کو منہ میں لے کر چوستی رہوں. میں نے ہونٹوں سے پکڑ کر لنڈ پر زبان بھی پھیرنی شروع کر دی. شبیر کو شائد کچھ زیادہ ہی مزہ آ رہا تھا. اس بات کا اندازہ اس کے منہ سے اہ اہ کی صورت میں نکلتی آوازوں سے بخوبی ہو رہا تھا.ساتھ ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا سر بھی تھام رکھا تھا. آج تک اتنی نمکین چیزیں کھائی تھیں، تقریبن ہر خانے کی چیز میں ہی نمک کا استعمال ہوتا ہے لیکن جیسا زائقہ شبیر کے لنڈ کا تھا، یہ زائقہ منفرد تھا. لاثانی. میں خود مزے لینے میں اس قصر مشغول تھی کہ آنکھیں بند کے مکمل یکسوئی سے لنڈ چوسے جا رہی تھی. میرے مزے لینے کا تانتا تب ٹوٹا جب مجھے محسوس ہوا کہ شبیر نے جو اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھے ہوے تھے اب وہ انہیں استعمال کر کے میرے سر کو آگے دھکیل رہا ہے. میں سمجھ گیی کہ اس کی کوشش ہے کہ لنڈ پورا میرے منہ میں داخل ہو جائے لیکن یہ میرے نزدیک تو ممکن نہیں تھا. میں یہ سوچ رہی تھی کہ ظاہر ہے جب اندر جگہ ہی نہیں تو کیسے ڈل سکتا ہے پورا. یہ سب سوچیں میری غلط فہمی یا پھر خوش فہمی ثابت ہوئیں جب شبیر کا دباؤ بڑھنے لگا. میں نے لنڈ سے ہاتھ ہٹا کر شبیر کی جانگیں پکڑ لیں. اب مجھے تکلیف ہونے لگی تھی. میں نے مزاحمت کی لیکن شبیر مجھ سے بہرحال طاقتور ہی تھا گو کہ دیکھنے میں اتنا مضبوط نہیں لگتا تھا. اس نے زبردستی میرے منہ میں لنڈ ڈالنے کی کوشش جاری رکھی. اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ جلد ہی لنڈ کا نوے فیصد حصّہ میرے منہ میں تھا. شبیر کے جذبات تھے کہ تھامنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے. لنڈ منہ میں جانے سے مجھے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی اور میرے ہونٹوں سے رال بہتی جا رہی تھی. شبیر پتہ نہیں کس دنیا میں تھا اس نے میرے سر کو پکڑ کر لنڈ میرے منہ میں اندر باہر کرنا شروع کردیا. میری حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی تھی. مجھے لگا کہ شبیر شائد ہوش و حواس میں نہیں ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے میری چوت میں لنڈ ڈال رکھا ہے. قریب تھا کہ میں تکلیف کی شدت سے مجبور ہو کر بے ہوش ہو جاتی کہ اس کے لنڈ سے گرم گرم مادے کی ایک دھار نکلی. جس شدت سے وہ میرے منہ کو چوت سمجھ کر چود رہا تھا، اس کا لنڈ میرے حلق تک جا رہا تھا. اسی لئے پہلی دھار تو سیدھی حلق سے گزر کر اندر چلی گیی. دوسری، تیسری اور اس کے بعد والی دھاروں سے نکلنے والا مادہ البتہ میرے منہ میں نکلا اور زبان بھی اس کی لذت سے آشنا ہوئی. اب مجھے معلوم ہوا کہ جو نمکین زائقہ مجھے پہلے محسوس ہوا تھا وہ اس مادے کا تھا نہ کہ پیشاب کا. ظاہر ہے پیشاب تو اتنا گاڑھا نہیں ہو سکتا تھا نہ. شبیر کے جھٹکوں میں بتدریج کمی آتی گیی اور میں نے اس کے لنڈ سے نکلنے والا مادہ اپنے حلق میں اتار لیا.

Please rate this story
The author would appreciate your feedback.
  • COMMENTS
Anonymous
Our Comments Policy is available in the Lit FAQ
Post as:
Anonymous
1 Comments
karli1234karli123412 months ago

good, let me read other parts

Share this Story

Similar Stories

The Compere The compere becomes a randi.in Loving Wives
His Sissy Whore Pt. 01 Inexperienced Indian sissy descends into whoredom.in Transgender & Crossdressers
My Mother Made Me a Pimp I become a Pimp.in Loving Wives
New Year's Eve A Memorable New Year Eve.in Group Sex
औलाद की चाह 001 परिचय- एक महिला की कहानी है जिसको औलाद नहीं है.in NonConsent/Reluctance
More Stories