(Part 1) پوش پورا

Story Info
An interfaith sex fantasy
4.9k words
3.13
2.2k
00
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

"اللہ کا واسطہ ہے۔ یہ ظلم نہ کرو۔" عائشہ نے منت بھرے لہجے میں بھارتی فوجیوں سے کہا جو ان کے گھر کی تلاشی کیلئے گھر میں گھس آئے تھے۔ عائشہ کا شوہر پہلے ہی باہر تھا جہاں کھلے میدان میں پوش پورا کے تمام مردوں کو اکٹھا کر لیا گیا تھا۔ دراصل یہ سارا واقعہ تب شروع ہوا جب چند مسلح افراد نے بھارتی فوج پر فائرنگ کی غلطی کی۔ مسلح افراد تو فائرنگ کر کے فرار ہو گئے لیکن بھارتی فوج نے ان کی تلاش کیلئے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔

عائشہ کے گھر میں صرف اس کا تین سالہ بیٹا تھا اور وہ خود تھی۔ بھارتی فوج نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا تھا کہ تمام مرد گھروں سے نکل کر میدان میں جمع ہو جائیں جہاں ان کی تلاشی لی جائے گی۔ مردوں کو اسلحے کے زور پر میدان میں روک کر بھارتی فوجیوں نے تین تین کی ٹولیوں میں گھروں کی تلاشی شروع کر دی جن میں اب صرف خواتین اور بچے ہی موجود تھے۔

عائشہ کا شوہر جب گھر سے نکلا تب ہی سے عائشہ کے دل میں ایک وسوسہ سا پیدا ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے آج کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔ یہ وسوسہ اس وقت حقیقت میں تبدیل ہو گیا جب اس کے گھر کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور تین بھارتی فوجی بندوقیں تانے گھر میں گھس آئے۔ بندوق کے زور پر عائشہ کو زمین پر لیٹنے پر مجبور کر دیا۔ تینوں فوجیوں کی وردی پر ان کے نام کا بیج لگا ہوا تھا۔ جسامت کے لحاظ سے بھی کافی ہٹے کٹے معلوم ہوتے تھے اور سونے پر سہاگا یہ کہ انہوں نے ہاتھوں میں جدید آٹومیٹک رائفلیں تھام رکھی تھیں۔ عائشہ کی تو گھگھی بندھ گئی۔ مارے ڈر کے وہ تھر تھر کانپنے لگی۔ اگرچہ تینوں فوجیوں نے چہرے پر مکمل نقاب چڑھا رکھے تھے اور صرف آنکھیں اور ہونٹ ہی نظر آ رہے تھے لیکن عائشہ کو ایسا لگتا تھا جیسے ان کے چہرے بے حد خوفناک ہیں۔ عائشہ زمین پر منہ کے بل لیٹی تھی اور ایک فوجی نے بندوق اس کی کمر پر ٹکا رکھی تھی۔ ڈر کے مارے عائشہ کے منہ سے سسکیاں بھی نہیں نکل پا رہی تھیں۔ بس آنکھوں سے آنسو بہے چلے جا رہے تھے۔ باقی دونوں فوجیوں نے گھر کی تلاشی لی اور عائشہ کے تین سالہ بیٹے کو اس کے کمرے سے یہیں لے آئے۔ حسنین بیچارہ ڈر کے مارے رونے لگا تھا۔ شاید اپنی ماں کی یہ حالت دیکھ کر اسے رونا آ گیا تھا۔ ایک فوجی نے اسے بھاری آواز میں چپ ہونے کو کہا لیکن جب وہ چپ نہ ہوا تو اس فوجی نے حسنین کے نرم گال پر ایک زوردار تھپڑ جڑ دیا۔ تھپڑ سے حسنین کا گال تو لال ہو گیا اور وہ چپ بھی ہو گیا لیکن عائشہ کی مامتا تڑپ اٹھی۔ اس کے لہجے میں بے انتہا درد تھا۔ "اللہ کا واسطہ ہے، یہ ظلم نہ کرو۔"

پروٹوکول تو یہ کہتا تھا کہ دوران تلاشی کوئی قابل اعتراض چیز نہ ملے تو فوجیوں کو لوٹ جانا چاہئے لیکن بھارتی فوجی یہ سنہری موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ پتہ نہیں وہ تینوں پہلے سے ہی یہ پلان بنا کر آئے تھے یا پھر عائشہ کو دیکھ کر انہوں نے اس کام کا ارادہ کیا تھا۔ ایک فوجی نے بندوق کی نوک پر عائشہ کو کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ لہجہ ایسا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت درجے کی انسان ہو۔ عائشہ نے حکم کی تعمیل کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ حسنین سہمی نگاہوں سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر آنسؤوں کے نشان واضح تھے۔ عائشہ نے تینوں فوجیوں کے نام ان کے بیجز سے پڑھ لئے تھے۔ جس فوجی نے اسے حکم دیا تھا اس کا نام راہول تھا جبکہ باقی دونوں کے نام بالترتیب پنڈت اور سوامی تھے۔

باہر میدان میں جہاں مرد جمع تھے، بھارتی فوج انکی تلاشی میں مشغول تھی۔ ان بھارتی فوجیوں کا رویہ انتہائی تضحیک آمیز تھا۔ دوران تلاشی نہ صرف وہ گالیوں کا استعمال کرتے تھے بلکہ اگر کوئی ذرا بھی مزاحمت کی کوشش کرتا تو اسے لاتیں، ٹھڈے، مکے، گھونسے سہنے پڑتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ فروری کا مہینہ تھا اور رات کے اس پہر برفباری کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری تھا۔ بھارتی فوجی تو مکمل وردی میں ملبوس تھے جس سے انہیں برفباری اور اس سے پیدا ہونے والی ٹھٹھرتی سردی کا رتی برابر احساس نہیں ہو رہا تھا لیکن پوش پورا کے رہائشی مردوں کی البتہ سردی سے قلفی جمی جا رہی تھی۔ ان بے چاروں کو صرف پانچ منٹ کے نوٹس پر باہر اکٹھا ہونے کا حکم دیا گیا تھا اور حکم کی تعمیل کیلئے اکثر مردوں کو جیکٹ یا جرسی پہننے کا موقع بھی نہیں مل سکا تھا۔ ویسے پہننے کا فایدہ بھی کچھ نہیں ہونا تھا کیونکہ جو اکا دکا لوگ پہن کر آئے تھے، بھارتی فوجیوں نے ان کی جیکٹیں بھی اتروا کر ایک سائیڈ پر پھینک دی تھیں۔ عائشہ کا شوہر علی بھی لائن میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔

راہول کے اگلے حکم نے عائشہ کے پیروں تلے زمین نکال دی۔ اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ حکم ہی ایسا تھا۔ راہول نامی فوجی نے عائشہ کو اپنے تمام کپڑے اتارنے کا حکم دیا تھا۔ عائشہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اس کی عزت لوٹنا چاہتے ہیں۔ دل ہی دل میں اس نے اللہ کو پکارا۔ یا اللہ میری مدد فرما۔ یا اللہ مجھے ان ظالم فوجیوں سے بچا۔ یا اللہ تجھے تیرے محبوب نبی کا صدقہ۔ میری مدد فرما۔ جب فوجیوں نے دیکھا کہ عائشہ بجائے حکم کی تعمیل کے روئے چلے جا رہی ہے تو انہوں نے اس کے بچے کو گریبان سے تھام کر بندوق کی نوک کنپٹی پر ٹکا دی۔ اگر معاملہ صرف عائشہ تک محدود رہتا تو شاید عائشہ ڈٹ جاتی لیکن حسنین پر ظلم وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ عائشہ ہی کیا دنیا کی کوئی ماں اپنے بچے پر ظلم برداشت نہیں کر سکتی۔ عائشہ نے متعدد مرتبہ ان فوجیوں سے گڑگڑا کر درخواست کی کہ خدا کا واسطہ ہے، یہ ظلم نہ کرو۔ اتنے ولولے سے تو وہ کبھی اللہ کے سامنے بھی نہ گڑگڑائی تھی جتنے جوش سے وہ ان بھارتی فوجیوں کے قدموں میں پڑی گڑگڑا رہی تھی لیکن بھارتی فوجیوں پر اس گڑگڑاہٹ کا ذرا اثر نہ ہوا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ الٹا اثر ہو تو بات درست ہو گی کیونکہ حقیقت یہی تھی کہ عائشہ کو اپنے سامنے اس طرح گڑگڑاتے دیکھ کر بھارتی ہندو فوجیوں کی انا کو خوب تسکین پہنچی تھی اور اب وہ اس تسکین کو انتہا تک پہنچانا چاہتے تھے۔

چٹاخ کی زوردار آواز کے ساتھ علی کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ پڑا۔ تھپڑ اتنی زور کا تھا کہ علی کا منہ پھر گیا تھا اور ہونٹوں میں خون کی لالی نظر آنے لگی تھی۔ یقیناً ہونٹ پھٹ گیا تھا۔ علی کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے بھارتی فوجی کے حکم کی تعمیل میں چند سیکنڈز کی تاخیر کر دی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ بھارتی فوجی آنند نے اسے حکم دیا تھا کہ لائن سے دو قدم آگے آ کر کھڑا ہو جائے۔ علی نے حکم کی تعمیل کیلئے قدم آگے بڑھانے بھی چاہے تھے لیکن شدید سردی میں کھڑے رہنے کے باعث ٹانگیں تقریباً شل ہونے لگی تھیں جس کی وجہ سے اسے قدم اٹھانے میں پانچ سے دس سیکنڈز کی تاخیر ہو گئی۔ آنند کیلئے یہ بات برداشت سے باہر تھی۔ اس کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر اس نے ذرا بھی نرمی دکھائی تو باقی لوگ بھی علی کی طرح سستی کا اظہار کرنے لگیں گے۔ اگرچہ بھارتی فوج میں مسلمان بھی تھے لیکن اس طرح کے آپریشنز میں ہندو فوجی ہی بھیجے جاتے تھے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ سرفہرست یہ وجہ تھی کہ ہندو فوجی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے تھے اور کسی قسم کے ظلم سے ہچکچاتے نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ علی کے اس نادانستہ عمل پر بات کرنے کی بجائے آنند نے ہاتھوں کا استعمال کیا تھا۔

عائشہ کی سسکیوں کا بھارتی فوجیوں پر یہ اثر ہوا تھا کہ انہوں نے حسنین کو گریبان سے پکڑ کر ایک ہلکا سا تھپڑ جڑ دیا تھا۔ اپنی طرف سے تو ہلکا سا تھپڑ مارا تھا پنڈت نے لیکن کشمیری بچے کیلئے یہ تھپڑ کم دردناک نہیں تھا۔ حسنین بلک بلک کر رونے لگا۔ اب کی بار سوامی نے حسنین کو تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ عائشہ چلا اٹھی: "خدا کا واسطہ ہے رک جاؤ۔ جو کہو گے میں کروں گی۔ خدا کا واسطہ۔ تمہیں تمہارے بھگوان کا واسطہ۔ میرے بچے کو کچھ نہ کہو۔"

سوامی کا ہوا میں اٹھا ہوا ہاتھ حسنین پر تو نہ پڑا لیکن خالی بھی نہ گیا۔ سوامی نے بھرپور تھپڑ عائشہ کے چہرے پر رسید کیا تھا۔ ساتھ ہی اس نے عائشہ کو مخاطب کر کے کہا: "کتے کی بچی۔ تیری جرت کیسے ہوئی اپنی ناپاک زبان سے بھگوان کا پوتر نام لینے کی۔ تیرا تو آج میں وہ حشر کروں گا کہ تیری سات نسلیں یاد رکھیں گی۔ جلدی کپڑے اتار اپنے ورنہ پھاڑ کر رکھ دوں گا۔" عائشہ بے چاری کی حالت دیدنی تھی۔ بھارتی فوجیوں پر نہ تو اس کی منتوں کا اثر ہوا تھا اور نہ ہی اس کی سسکیوں اور آنسوؤں کا۔ اس نے جلدی جلدی اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے۔ دل ہی دل میں وہ روئے جا رہی تھی۔ آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ بچپن سے وہ انتہائی مذہبی گھرانے میں رہتی آئی تھی اور اسلامی شعائر کی مکمل پاسداری اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ وہ تو گھر سے باہر بھی بہت کم نکلتی تھی اور جب بھی نکلتی تھی مکمل برقعے میں ملبوس ہو کر نکلتی تھی۔ عائشہ کا چہرہ آج تک کسی نا محرم مرد نے نہ دیکھا تھا۔ اتنی پاکباز خاتون آج اپنے کمسن معصوم بیٹے کی موجودگی میں بھارتی فوجیوں کے سامنے خود کو کپڑوں کی قید سے آزاد کر رہی تھی۔ اللہ اللہ۔ یہ منظر دیکھ کر زمین پھٹ کیوں نہ گئی۔ آسمان کیوں نہ گر گیا۔

عائشہ نے اپنے بدن سے ایک ایک کر کے کپڑے اتارنے شروع کئے۔ اپنی طرف سے تو وہ تیزی سے ہی کپڑے اتار رہی تھی لیکن سوامی کو لگا جیسے اب بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ شاید اسی لئے اس نے آگے بڑھ کر عائشہ کی قمیض کا دامن پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ چررررررر کی آواز سے نہ صرف قمیض پھٹ کر اس کے جسم سے علیحدہ ہو گئی بلکہ عائشہ کے بدن پر کپڑا چبھنے سے ایک سرخ لکیر پڑ گئی۔ اگر کسی اور موقع پر قمیض پھٹتی تو عائشہ ضرور اپنے خاوند کو اس دکان کی طرف روانہ کرتی کہ جہاں سے اس نے یہ قمیض خریدی تھی لیکن یہاں تو قمیض پھٹنے میں قمیض کے کپڑے کا ایک فیصد بھی قصور نہ تھا۔ سوامی ان تینوں فوجیاں میں سب سے ہٹا کٹا معلوم ہوتا تھا۔ طاقت کا مظاہرہ تو قمیض پھاڑ کر کر ہی دیا تھا لیکن عائشہ کو قمیض پھٹنے سے ذیادہ اس کی آنکھیں خوفناک دکھائی دے رہی تھیں۔ جب سوامی نے عائشہ کی قمیض پھاڑی تو ایک لمحے کیلئے عائشہ نے نظریں اٹھائی تھیں۔ اس ایک لمحے میں ہی اس نے سوامی کی آنکھوں میں نفرت کا سمندر موجزن دیکھا جس سے خوف کی ایک لہر اس کے نازک بدن میں دوڑ گئی تھی۔ بدن کی نازکی کا اندازہ تو اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ محض کپڑا پھرنے سے ہی پیٹ پر ایک سرخ لکیر بن گئی تھی۔ سب کشمیریوں کی طرح عائشہ کا رنگ بھی دودھیا سفید تھا۔ یہ رنگ ہی تھا جس کی وجہ سے یہ سرخ لکیر کچھ زیادہ ہی نمایاں تھی۔ عائشہ کے برعکس، ان تینوں بھارتی فوجیوں کا رنگ تقریباً سیاہ تھا۔ مکمل وردی میں ملبوس ہونے کی وجہ سے ان کی رنگ و نسل کا اندازہ کرنا مشکل تھا لیکن آنکھیں اور اردگرد کا کچھ حصہ نقاب سے باہر تھا جو ان کے سیاہ فام ہونے کی دلالت کرتا تھا۔ آواز کا بھاری پن بھی ایسا تھا جو سیاہ فام لوگوں کیلئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے وردی میں ملبوس ہونے پر عائشہ کا یہ حال تھا کہ تھر تھر کانپ رہی تھی تو اگر وہ تینوں وردی میں نہ ہوتے تو شاید خوف سے عائشہ بے ہوش ہی ہو جاتی۔ تھر تھر کانپتے ہاتھوں سے وہ اپنی سرخ رنگ کی برا کا ہک کھولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ہاتھوں میں مسلسل جنبش کی وجہ سے ہاتھ ایک جگہ مرکوز ہی نہ ہو پا رہے تھے۔ تینوں فوجیوں کی نظریں عائشہ پر ایسے جمی تھیں کہ جیسے وہ اپنی نظروں سے ہی عائشہ کو کھا جانا چاہتے ہوں۔ ویسے جو کام وہ کرنا چاہتے تھے اس کا اشارہ ان کی پتلونوں میں پیدا ہونے والے ابھار سے بخوبی ملتا تھا۔

دوسری طرف علی کی حالت خراب تر ہوتی جا رہی تھی۔ دوران تلاشی آنند کو اس کی جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا ملا تھا جس پر ایک تحریر تھی اور ساتھ ہی ایک نمبر درج تھا۔ تحریر کسی نامعلوم زبان میں تھی اس لئے اسے پڑھنا آنند کیلئے ناممکن تھا لیکن آنند نے بھی اس کی حقیقت جاننے کا فیصلہ کر لیا تھا خواہ اس کیلئے اسے کسی بھی حد سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ ویسے بھی نرمی کا لفظ اس کی لغت میں شامل ہی نہیں تھا۔ اس نے علی سے سخت لہجے میں پوچھا لیکن علی کا جواب سن کر اس کا غصہ دوآتشہ ہو گیا۔ علی کے بقول اسے خود بھی یہ زبان نہیں آتی تھی اور نہ ہی اسے معلوم تھا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا اس کی جیب میں کہاں سے آیا۔ آنند ہی کیا، کسی بھی شخص کیلئے یہ وضاحت ناقابل یقین تھی۔ آنند کا دل کیا کہ ہولسٹر سے بندوق نکال کر ابھی علی کا بھیجا اڑا دے لیکن اس طرح اسے نہ تو تحریر کی حقیقت پتہ چلنی تھی اور نہ ہی اس کے جذبہ انتقام کو تسکین ملنی تھی۔ جذبہ انتقام اس لئے کہ آنند کے آباؤاجداد کا تعلق بھی کشمیر سے ہی تھا اور اسے کے والد کشمیر میں ایک مندر میں پنڈت تھے۔ کئی دہائیاں پہلے سب امن سے رہتے تھے لیکن چند انتہا پسند مسلمانوں کے بھڑکانے پر سب مسلمانوں نے مل کر کشمیر میں بسنے والے پرامن ہندوؤں پر دھاوا بول دیا تھا۔ لاکھوں ہندو جان سے مار دیئے گئے تھے اور چند خوش نصیب ہی اپنی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو پائے تھے۔ ان ہی چند خوش نصیبوں میں ایک فرد آنند کے والد بھی تھے۔ آنند کے والد نے بارہا آنند کو کشمیر میں لاکھوں ہندؤوں کے قتل عام کا آنکھوں دیکھا منظر سنایا تھا جسے سن کر ہر بار آنند کا خون کھول اٹھتا تھا۔ اس نے بچپن ہی سے سوگند کھا رکھی تھی کہ اس ظلم کا بدلہ ایک دن وہ ضرور لے گا۔ شاید بدلے کا وقت آن پہنچا تھا۔

آنند کے برعکس، پنڈت سوامی اور راہول کے ساتھ ایسا کوئی پس منظر نہیں تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ انہیں مسلمانوں اور خصوصاً کشمیری مسلمانوں سے کوئی ہمدردی تھی۔ وہ لوگ بھارت میں بارہا دیکھتے تھے کہ بھارتی مسلمانوں کی تمام ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن کھاتے یہ سب بھارت کا ہیں۔ جہاں یہ بات ان کی نفرت کا باعث تھی وہیں انہیں اس بات پر بھی شدید غصہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو باقی نسل کے لوگوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ سب کو کافر کہتے ہیں جبکہ خود کو جنتی سمجھتے ہیں۔ مسلمان مرد ہندو لڑکیوں سے شادی کریں تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر کوئی ہندو مرد کسی مسلمان لڑکی کو پسند کر لے تو اسے مسلمان ہونا پڑتا تھا۔ یہ دوغلا پن ہی تو تھا کہ ہندو مسلمان سے پیار کرے تو مذہب ہندو کو ہی تبدیل کرنا ہوتا تھا۔ کئی بار مسلمان لڑکیوں کو ہندو لڑکوں سے تعلق پر قتل کر دیا جاتا تھا اور قتل کرنے والے بھی کوئی اور نہیں اس کے اپنے ہم مذہب یعنی مسلمان ہی ہوتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود، اکثر ہندو مسلمان لڑکیوں کی خداداد خوبصورتی کے دل سے قائل تھے۔ قائل نہ بھی ہوتے تو عائشہ کو اپنے سامنے برہنہ کھڑی دیکھ کر ضرور ہو جاتے۔ گورے چٹے بدن پر کہیں ایک معمولی سا دھبہ بھی نہ تھا۔ صرف ایک سرخ لکیر پیٹ پر نمایاں تھی۔ حسنین بھی رو دھو کر چپ ہو گیا تھا اور اب متجسس نگاہوں سے اپنی ماں کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا جس نے مارے شرم کے اپنا ایک بازو پستانوں پر رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرے سے اپنی اندام نہانی چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ پتلونوں میں عضو تناسل کی جگہ پر ابھار دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا تھا کہ اب بات ان تینوں کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔

بات تو آنند کی برداشت سے بھی باہر ہوتی جا رہی تھی کیونکہ اس کے ہر سوال کا جواب علی کے پاس صرف یہ تھا کہ مجھے نہیں معلوم۔ ایسے جواب پر تو ایک سکول ٹیچر کو بھی غصہ آ جاتا ہے، آنند تو پھر دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک کا سپیشل ایجنٹ تھا۔ اس کا غصہ قدرتی تھا۔ سپیشل ایجنٹ ہونے کے ناطے اس کا ذہن عام فوجیوں سے ذیادہ تیز تھا اور اس کے طریقے بھی ان سے جدا گانہ تھے۔ تشدد تو وہ بھی کرتا تھا لیکن تشدد کے بھی ایسے طریقے اختیار کرتا تھا کہ دیکھنے والے تو دیکھنے والے، سننے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ علی کی ہٹ دھرمی پر اس نے بجائے غصے کے بے جا اظہار پر دوسری حکمت عملی کو ترجیح دی۔ یہ بات تو آنند کو اچھی طرح سے سمجھ آ چکی تھی کہ علی کا تعلق دہشت گردوں سے ہے اور یہ اسلامی دہشت گرد دھن کے پکے ہوتے ہیں لہذا روایتی تشدد کا ان پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔ آنند نے دو فوجیوں کو آواز دے کر اپنی طرف بلایا اور انہیں علی کے بدن سے کپڑے علیحدہ کرنے کا حکم دیا۔ چند منٹوں میں ہی علی سب کے سامنے الف ننگا کھڑا تھا۔ سردی سے تو وہ پہلے ہی کانپ رہا تھا، ننگا ہونے پر اس کے دانت بجنا شروع ہو گئے۔ اگر بات یہاں تک ہی رہتی تو پھر بھی علی کیلئے شاید قابل برداشت ہوتی لیکن آنند کے شاطر دماغ میں کچھ اور ہی تھا۔ اس نے ایک اور مرد کو قطار سے نکال کر ایک طرف لے جا کر علی کے بارے میں ذاتی معلومات حاصل کیں۔ وہ شخص علی کا انجام دیکھ ہی رہا تھا، اس لئے سب کچھ اگل دیا۔

ادھر عائشہ کی حالت بھی علی سے کچھ کم خراب نہ تھی۔ بھارتی فوجیوں نے اسے اس لئے تو ننگی ہونے کا حکم نہیں دیا تھا کہ وہ ننگی ہو کر بھی اپنے جسم کے ان اعضا کو چھپائے جنہیں دیکھنے کیلئے اسے ننگی ہونے کا کہا تھا۔

عائشہ کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی تھی۔ چیخ اتنی بلند تھی کہ آس پاس رہنے والوں کے گھروں میں واضح سنائی دی تھی۔ اس کے باوجود کوئی عائشہ کی مدد کو نہ آیا تھا۔ آتا بھی کون، مرد تو سارے پہلے ہی اکٹھے کر لئے گئے تھے اور جو خواتین اور بچے بچیاں گھروں میں رہ گئے تھے ان کے ساتھ تو خود وہی ہو رہا تھا جو عائشہ کے ساتھ ہو رہا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ راہول نے ایک زوردار تمانچہ عائشہ کے منہ پر رسید کیا تھا۔ طمانچہ اس قدر زوردار تھا کہ عائشہ کا ہونٹ تھوڑا سا پھٹ گیا تھا اورخون رسنے لگا تھا۔ بیچاری کے منہ سے اتنی زور کی چیخ نکلی تھی کہ جیسے جان نکل گئی ہو لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ آج کی رات جو کچھ اس کے ساتھ ہونے والا ہے اس کے مقابلے میں یہ طمانچہ تو کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ راہول نے بھی محض طمانچے پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ طمانچہ رسید کرنے کے بعد بالوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے عائشہ کو زمین پر گھٹنوں کے بل بٹھا دیا تھا اور اس سے پہلے کہ عائشہ کے رونے کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی، اس نے اپنا عضو تناسل عائشہ کے منہ میں ڈال دیا بلکہ گھسیڑ دیا کہنا ذیادہ مناسب ہو گا کیونکہ عائشہ کے منہ میں اتنی گنجائش ہی نہیں تھی کہ راہول کے عضو تناسل کو منہ میں لے سکتی لیکن گنجائش تھی یا نہیں، راہول کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ پنڈت اور سوامی نے بھی اپنی بندوقیں ایک سائیڈ پر رکھ دی تھیں اور پتلونوں سے اپنی دوسری بندوقیں نکال لی تھیں۔ عائشہ کیلئے تو ان کی یہ والی بندوقیں ذیادہ خطرناک ثابت ہوئی تھیں۔ تقریباً تینوں کے عضو تناسل لمبائی موٹائی اور رنگت میں یکساں تھے۔ اگر کوئی فرق رہا بھی ہو گا تو عائشہ کیلئے اس وقت جانچنا نہ تو ممکن تھا اور نہ ہی یہ بات اس کیلئے اہم تھی۔ ناز و نعم میں پلی دوشیزہ کی جب سے علی سے شادی ہوئی تھی تو علی نے ہمیشہ مباشرت بھی ایسے انداز میں کی تھی کہ عائشہ کو ذرہ برابر تکلیف نہ پہنچے۔ کہاں اتنے ناز نخرے اور کہاں بھارتی فوجیوں کا یہ سلوک کہ تینوں ہی اس کے منہ میں اپنا عضو تناسل گھسیڑنے کو بے تاب ہوئے جاتے تھے۔ ختنے نہ ہونے کے باعث، عضو تناسل کے اگلے حصے پر اتنے کھال تھی کہ عضو تناسل کا اگلا حصہ مکمل کھال میں چھپ چھپ جاتا تھا۔ راہول کا انداز اس قدر بے رحمانہ تھا کہ اس نے بجائے عائشہ کا سر پکڑنے کے بال پکڑ رکھے تھے اور اپنا عضو تناسل تیزی سے عائشہ کے منہ میں اندر باہر کر رہا تھا۔ ایسے میں جب باہر نکالنے کیلئے عائشہ کے بال کھینچتا تو عائشہ کی تکلیف دو گنا ہو جاتی۔ اس بے چاری کی تو حالت اتنی بری تھی کہ اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا۔ سانس تو رکنا ہی تھا۔ راہول کا عضو اس کے حلق تک پہنچ رہا تھا اور مسلسل دھکوں کی وجہ سے اس کیلئے آواز نکالنا بھی بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ یہ بات نہیں کہ حلق سے کوئی آواز برآمد نہیں ہو رہی تھی۔ آواز تو نکل رہی تھی لیکن یہ آواز راہول کے عضو تناسل کے دھکوں سے پیدا ہونے والی پچ پچ کی تھی۔ عائشہ کے منہ سے تھوک نکل کر نیچے بہہ رہا تھا۔ پنڈت اور سوامی دونوں اپنے عضو تناسل تھامے کھڑے تھے۔ راہول کے دھکوں میں بتدریج تیزی آتی جا رہی تھی۔ یقیناً اس کا لطف بھی ہر دھکے کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے بھارت میں کئی بار مساجد کے لاؤڈ سپیکر پر اماموں کو یہ وعظ کرتے سنا تھا کہ مسلمانوں کو جنت میں بہتر حوریں عطا کی جائیں گی جن کے سینے بڑے ہوں گے اور انہیں کسی مرد نے چھوا تک نہیں ہو گا۔ راہول اکثر جب بھی مسلمان خواتین کو برقعے میں ملبوس دیکھا کرتا تو اسے ان حوروں کا ہی خیال آتا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ برقعوں میں ملبوس ان مسلمان خواتین کی چھاتیاں برقعے کی وجہ سے نمایاں ہو جاتی تھیں۔ خواہش کے باوجود آج تک کسی مسلمان لڑکی سے ہمبستری نہ ہونے کے بعد آج جب عائشہ کو دیکھا تو راہول کے ذہن میں وہ سب پرانے خیالات لوٹ آئے۔ عائشہ کے منہ میں اپنا عضو تناسل ڈال کر دھکے مارتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ جنت میں ہے اور عائشہ اللہ کی طرف سے اسے بطور حور عطا کی گئی ہے۔ عائشہ کسی حور سے کم تھی بھی نہیں۔ گورا چٹا دودھیا بدن، ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود ایسا متناسب فگر کہ نظریں پھسل پھسل جاتی تھیں۔ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہونے کے ناطے لاڈلی تھی اور انتہائی نازک جیسے گلاب کی پنکھڑی۔ گالوں پر سرخی نمایاں تھی جیسے اکثر کشمیری خواتین کے ہوا کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ راہول کے تھپڑ نے یہ سرخی مزید گہری کر دی تھی۔ ایک آدھ منٹ کے مزید دھکوں کے بعد راہول کے عضو تناسل سے مادہ منویہ خارج ہو گیا۔ چونکہ عضو تناسل عائشہ کے منہ سے باہر نکلا تک نہ تھا لہذا مادہ بھی سیدھا حلق سے ہوتا ہوا معدے میں چلا گیا لیکن مادہ منویہ اتنا ذیادہ اور گاڑھا تھا کہ عائشہ کو پھندہ لگا اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی۔ چند سیکنڈز مزید تڑپانے کے بعد راہول نے عضو تناسل اس کے منہ سے نکالا اور عائشہ زمین پر اوندھے منہ گر کر ہانپنے لگی۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس تکلیف سے نکال لیجئے۔ یا اللہ میری دعا قبول فرما لیجیۓ۔

قریب تھا کہ سوامی یا پنڈت عائشہ کو اٹھا کر وہی عمل دہرانے لگتے کہ دروازے پر دستک کی آواز سن کر رک گئے۔ عائشہ کو لگا شاید اللہ نے اس کی دعا قبول فرما لی۔

بادل ناخواستہ سوامی پنڈت اور راہول کو اپنے عضو تناسل پتلونوں کے اندر کرنے پڑے۔ راہول کا عضو تناسل تو مادہ منویہ کے اخراج کے بعد ڈھیلا ہو گیا تھا اس لئے آسانی سے واپس پتلون میں سما گیا البتہ سوامی اور پنڈت دونوں کو اپنے عضو تناسل پتلون کے اندر کرنے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا اور عضو تناسل اندر کر کے زپ بند کرنے پر بھی پتلون میں کسی حد تک ابھار باقی تھا جو بغور دیکھنے پر نظر آ سکتا تھا لیکن دروازے پر آئے شخص کو ان کی پتلونوں کے ابھار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ تو محض ایک اردلی تھا جو میجر آنند کا پیغام ان تک پہنچانے آیا تھا۔ میجر آنند نے علی کی بیوی اور بچے کو طلب کیا تھا۔

اگر طلب کرنے والا کوئی اور ہوتا تو شاید پہلے تینوں بھارتی فوجی عائشہ کو لباس پہناتے، پھر حکم کی تعمیل کرتے لیکن چونکہ یہ تینوں میجر آنند کی کمانڈ میں کام کر چکے تھے اس لئے انہیں اندازہ تھا کہ اس طلبی کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے بجائے عائشہ کو لباس پہنانے کے ایسے ہی ننگی حالت میں میجر کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ عائشہ کو بمشکل تین چار منٹ ہی ملے ہوں گے اور ابھی اس کی سانس بھی درست نہ ہو پائی تھی کہ کولہوں پر سوامی کی پاؤں کی ضرب سے تلملا اٹھی۔ عائشہ کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ دروازے پر کون تھا اور کیوں آیا تھا۔ ایک تو سوامی کا ڈیل ڈول بھاری، اوپر سے فوجی بوٹ، پھر موسم بھی سرد اور عائشہ کا ننگا بدن۔ ان سب کی وجہ سے ضرب کی تکلیف کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ سوامی نے ضرب لگا کر اسے اٹھنے کا حکم دیا تھا: "چل اٹھ کتیا، تجھے باس نے یاد کیا ہے."

بھارتی فوجیوں کی عائشہ سے نفرت کا پتہ اس بات سے بھی چلتا تھا کہ اول تو اسے مخاطب ہی نہیں کر رہے تھے۔ دوسرا جب بھی وہ اسے مخاطب کرتے تو ان کا لہجہ اتنا تضحیک آمیز ہوتا جیسے عائشہ کوئی انسان نہیں بلکہ جانور ہے۔ بات صرف لہجے تک ہی رہتی تو بھی شاید قابل برداشت ہوتی لیکن وہ تو بات کم اور تھپڑ، گھونسوں اور مکوں کا استعمال زیادہ کر رہے تھے۔ بالکل ایسے جیسے کسی آوارہ کتیا کو لوگ مار کر بھگاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی سلوک عائشہ کے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ ظاہر ہے جو لڑکی اپنی تمام زندگی میں بنا پردے کے گھر سے باہر نہ نکلی ہو اسے ننگی کر کے گلیوں میں گھمانے پر بے عزتی اور شرم تو محسوس ہونی ہی تھی۔ شرم تو ایک بہت چھوٹا لفظ ہے۔ جو جذبات عائشہ کے اس وقت تھے، شرم کا لفظ کسی طور مناسب نہیں۔ عائشہ کا بس نہیں چلتا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ گلی میں چلتے ہوئے آس پاس گھروں سے خواتین کی دبی دبی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ یقیناً باقی گھروں میں بھی بھارتی فوجی اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے اور گھروں کی تلاشی سے ذیادہ گھر والیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔ ننگے پاؤں اتنی سردی میں چلنا عائشہ کیلئے اگرچہ مشکل تھا لیکن نا ممکن نہیں۔ وہ اپنی رفتار تیز رکھے ہوئے تھی اس ڈر سے کہ کہیں آہستہ رفتار بھارتی فوجیوں کو ناگوار نہ گزرے۔ بھارتی فوجی بھی یہ دیکھ کر مسکرائے بغیر نہ رہ پائے تھے۔ بلاآخر وہ ایک مسلمان لڑکی کی عزت نفس کو اس حد تک پامال کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ وہ انہیں خوش کرنے کی خاطر کچھ کرنے کو تیار ہوئی تھی۔ اپنے سامنے ایک پردہ دار مسلمان لڑکی کو ننگی کر کے گلیوں میں پریڈ کروانے پر بھی انا کو مکمل تسکین نہیں ملی تھی۔ عائشہ ان کے ڈر سے تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی جس سے اس کے کولہے تھرتھرا رہے تھے۔ عائشہ دل میں سوچ رہی تھی کہ ہر کام اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے اور اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے لیکن آخر اس طرح کافروں کے ہاتھوں ہزیمت میں آخر کیا حکمت ہو سکتی ہے۔ ہر قدم پر اسے تمام پرانی تعلیمات یاد آ رہی تھیں۔ بچپن میں والدین کی زبانی سنے واقعات اور بلوغت کے بعد بھی متعدد مرتبہ عالمہ کی زبانی امہات المومنین کے صبر و شکر کے واقعات بھی یاد آ رہے تھے۔ پتہ نہیں یہ ان واقعات کو یاد کرنے کی وجہ سے تھا یا پھر عائشہ کی خودی جاگ اٹھی تھی، اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ خواہ کتنا ہی ظلم ڈھا لیں، وہ ثابت قدم رہے گی ہر ظلم کو اللہ کی خوشنودی کیلئے برداشت کرے گی۔ یہی وجہ تھی کہ عائشہ چلتے چلتے راہول، سوامی اور پنڈت کی چھیڑ چھاڑ خندہ پیشانی سے برداشت کر رہی تھی۔ چھیڑ چھاڑ کیا تھی، اذیت ہی تھی۔ کبھی راہول تو کبھی سوامی یا پنڈت عائشہ کے کولہوں پر تھپڑ مار دیتا تھا۔

Please rate this story
The author would appreciate your feedback.
  • COMMENTS
Anonymous
Our Comments Policy is available in the Lit FAQ
Post as:
Anonymous
Share this Story

Similar Stories

(PART 2) پوش پورا An interfaith sex fantasyin Erotic Couplings
Musalmani Qubool Hindu boy watches as his sister in law is taken.in NonConsent/Reluctance
World Cup Final The greatest game of their lives.in Erotic Couplings
Sultan of Bwangodesh Ch. 01 A middle age feudal erotica set in eastern Hindustan.in Novels and Novellas
The Deccan Princess Ch. 01 A medieval erotica set in Hindustan.in Novels and Novellas
More Stories