(PART 2) پوش پورا

Story Info
An interfaith sex fantasy
4k words
2.33
3k
0
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

عائشہ نے دل میں ارادہ تو کیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ اسلام کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گی لیکن جب اسے اپنے کولہوں پر ہندو فوجیوں کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوتا تو اسے بے پناہ دکھ ہوتا۔ تینوں فوجی بھی تو مکمل شیطانی موڈ میں تھے۔ کبھی عائشہ کے کولہوں پر ہاتھ پھیرتے تو کبھی تھپڑ رسید کر دیتے۔ ایسے میں عائشہ کچھ بھی نہ کر پاتی اور اپنے قدم اور تیز کر دیتی۔ عائشہ کے اس اضطراری عمل پر فوجیوں کے قہقہے زہر معلوم ہوتے تھے۔
سوامی نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے زمین پر پڑی ایک درخت کی پتلی سی شاخ اٹھائی اور زور سے عائشہ کے کولہوں پر رسید کر دی۔ عائشہ بلبلا اٹھی۔ ضرب اتنی زور کی تھی کہ کولہوں پر گہرے سرخ رنگ کی لکیر پڑ گئی۔ عائشہ کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آگ لگ گئی ہو۔ وہ بے اختیار اپنے کولہوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ درد کے مارے آنکھوں سے آنسو اور منہ سے سسکیاں بھی نکل رہی تھیں۔ بھارتی فوجیوں کے دل میں ذرا رحم نہیں آیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ تینوں مجسم شیطان ہوں۔ رحم تو دور کی بات ہے، انہیں دیکھ کر تو محسوس ہوتا تھا کہ انہیں عائشہ کی تکلیف میں لذت محسوس ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے عائشہ کی سسکیاں بلند ہوتی تھیں ویسے ویسے ان کے قہقہے۔ عائشہ کیلئے چلنا بھی دوبھر ہو گیا تھا لیکن اس کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ زخم سے خون رس رہا تھا اور جلن شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی۔ اتنی تکلیف کے باوجود بھارتی فوجیوں کا رویہ بدستور ہتک آمیز ہی تھا۔
اتنی شدید جسمانی تکالیف کے باوجود عائشہ کو اگر فکر تھی تو اس بات کی کہ اس کی حیا تار تار ہو رہی تھی۔ اسے اپنے زخموں اور ان سے رستے خون کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ نہ ہی اسے زخموں سے اٹھتی ٹیسوں کی کوئی پرواہ تھی۔ وہ تو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہی تھی کہ آج تک اس نے اپنا بدن، اپنی حیا سب کچھ نا محرم لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا تھا، آج وہ سب کچھ عیاں ہو گیا تھا۔ عائشہ کو سب سے بڑا ڈر یہ تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی نہ ہو جائے۔ بظاہر عائشہ نے اپنے آنسو بڑی حد تک روک رکھے تھے لیکن دل ہی دل میں وہ گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہی تھی کہ یا اللہ مجھ پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا جتنا میں برداشت کر سکوں۔ شاید اللہ تعالیٰ نے بھی آج عائشہ کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ جیسے ہی وہ آبادی سے نکل کر میدان میں داخل ہوئے عائشہ نے اپنے شوہر علی کو برہنہ حالت میں کھڑے دیکھ لیا تھا۔ دیکھا تو اس نے باقی سب لوگوں کو بھی تھا جو قطار میں تلاشی دینے میں مصروف تھے لیکن ان سب کے جسموں پر لباس تھا جبکہ علی کو قطار سے علیحدہ کر کے ننگا کر دیا گیا تھا۔ عائشہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ چونکہ جس طرف سے عائشہ اور اس کے پیچھے تینوں فوجی میدان میں داخل ہوئے تھے، باقی لوگوں کا رخ بھی اسی طرف تھا اس لیے میدان میں داخل ہوتے ہی عائشہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔ جو لوگ عائشہ کو بہن، بیٹی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، آج عائشہ ان کے سامنے بے لباس کھڑی تھی۔
بھارتی فوجیوں نے عائشہ کو کتیا کی طرح ہانکتے ہوئے میجر آنند کی خدمت میں پیش کیا جس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر عائشہ کو بالوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے میں زمین بوس کر دیا۔ یہ سب کچھ علی کے سامنے ہو رہا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنا پڑ رہا تھا۔ اپنی حسین بیوی کو یوں بھارتی فوجیوں کے تشدد کا نشانہ بنتے دیکھ کر اس کی برداشت ختم ہونے لگتی تو وہ آنکھیں بند کر لیتا میجر آنند کو یہ بھی منظور نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد تو علی سے حریت پسند دہشتگردوں کے متعلق معلومات حاصل کرن تھا اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہی وہ اتنی تگ و دو کر رہا تھا۔ بھلا وہ یہ کیسے پسند کرتا کہ علی آنکھیں بند کر کے اپنی بیوی پر گزرے ان یادگار لمحات کو نہ دیکھ پائے۔ میجر آنند کے اشارے پر ایک بھارتی فوجی اسی ڈیوٹی پر معمور کیا گیا تھا۔ علی کے آنکھیں بند کرتے ہی وہ فوجی علی کے ننگے بدن پر کوڑوں کی برسات کر دیتا تھا۔ مجبوراً علی کو آنکھیں کھولنی پڑتی تھیں اور وہ منظر دیکھنا پڑتا تھا جو علی کیلئے جسمانی تشدد سے ذیادہ تکلیف دہ تھا۔ میجر آنند نے عائشہ کو بالوں سے گھسیٹ کر علی کے عین سامنے پھینکا تھا۔ وہ بیچاری مسلسل روئے چلے جا رہی تھی۔ شاید اب اس کی برداشت کا اصل امتحان شروع ہوا تھا۔ عائشہ کے ہونٹوں، کمر اور کولہوں سے رستہ خون اس کے گورے چٹے ملائم بدن پر ایک بدنما داغ کی طرح دکھ رہا تھا۔ میجر آنند نے علی کو مخاطب کر کے اسے آخری وارننگ دی: 'اب بھی وقت ہے، سب کچھ بتا دو ورنہ اگلوا تو میں تم سے لوں گا ہی لیکن اس کی بہت بھاری قیمت تمہاری اس نازک بیوی کو بھگتنا ہو گی۔'
علی کے دل میں ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ اپنی تنظیم سے غداری کرے۔ اس کی تربیت ہی اس انداز میں کی گئی تھی کہ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کر سکے۔ اس کی جگہ کوئی اور کشمیری ہوتا تو کب کا اگل دیتا لیکن علی نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہی ہو جائے وہ میجر آنند کو کچھ نہیں بتائے گا۔ میجر آنند کے سوال کے جواب میں علی نے بجائے جواب دینے کے میجر آنند کی جانب تھوک دیا۔ قریب تھا کہ پاس کھڑے بھارتی فوجی علی پر پل پڑتے اور اس کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دیتے لیکن میجر آنند نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ ویسے بھی علی کا تھوک میجر آنند تک نہیں پہنچ پایا تھا اور اگر پہنچ بھی جاتا تو میجر آنند کبھی اس بات کی اجازت نہ دیتا کہ علی کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ میجر آنند روایتی تشدد کے خلاف تھا۔ اس کا نظریہ یہ تھا جس شخص سے معلومات درکار ہوں، اس پر تشدد کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے محبوب ترین شخص پر تشدد کیا جائے۔ میجر آنند کا یہ ماننا تھا کہ جسمانی تشدد سے ذیادہ ذہنی تشدد کارگر ہوتا ہے۔ اس نے نفسیات میں ماسٹرز کی ڈگری لے رکھی تھی اور کشمیر پوسٹنگ سے پہلے وہ ٹریننگ کے سلسلے میں اسرائیل کا دورہ کر چکا تھا جہاں اس نے اسرائیلی فوجیوں سے دہشتگردوں سے نمٹنے کا ایک سے ایک طریقہ سیکھا تھا۔ علی پر بھی وہ اسرائیلی طریقہ آزمانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
ان سب حالات میں عائشہ بے چاری بے گناہ ہی ماری گئی تھی۔ نہ تو اس کو اپنے خاوند کی خفیہ شناخت کا علم تھا اور نہ ہی وہ بھارتی فوجیوں سے کچھ چھپا رہی تھی۔ معلومات تو دور کی بات ہے، اس بیچاری کا تو جسم بھی سب کے سامنے عیاں ہو چکا تھا۔ میجر آنند کے سوال پر علی کا ردعمل عائشہ کیلئے غیر متوقع تھا۔ آج تک اس نے علی کو ہمیشہ ایک محبت کرنے والے خاوند کے روپ میں دیکھا تھا اور اس روپ کا تقاضا تھا کہ وہ عائشہ کو تکلیف سے بچانے کیلئے ہر حد سے گزر جاتا لیکن علی نے عائشہ پر اپنے کاز کو ترجیح دی تھی۔
علی کیلئے ایک ایک لمحہ صدی کے برابر تھا۔ اس نے لاکھ کوشش کی کہ اپنی توجہ کہیں اور مرکوز رکھے لیکن عائشہ کی چیخیں اسے چین نہیں لینے دے رہی تھیں لیکن اس میں عائشہ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس کی جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو اس کے حلق سے چیخیں نکلنا لازمی امر تھا۔ میجر آنند کے حکم پر عائشہ کو برف پر چت لٹا دیا گیا تھا۔ عائشہ پہلے ہی کافی دیر سے ننگی حالت میں تھی اور وادی پوش پورا کا موسم فروری کے ان دنوں کافی سرد تھا۔ یہ بات خود عائشہ کیلئے بھی انتہائی حیران کن تھی کہ وہ اب تک اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو کیسے برداشت کر پائی تھی کیونکہ نہ صرف عائشہ بلکہ اس کے تمام جاننے والوں کو یہ بات پتہ تھی کہ عائشہ بہت نازک لڑکی ہے اور ذرا ذرا سی بات پر اس کی آنکھوں میں آنسو آنا معمولی بات ہے۔ عائشہ کے دل میں بات بیٹھ گئی تھی کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ مصیبت کے وقت اپنے اچھے اعمال کو یاد کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور مصیبت سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب راہول، سوامی اور پنڈت اسے ایک حقیر کتیا کی مانند ہانکتے ہوئے میجر کے سامنے پیش کر رہے تھے، عین اس وقت عائشہ نے دل ہی دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ خواہ کچھ ہو جائے، وہ ثابت قدمی سے سب کچھ برداشت کرے گی۔ عائشہ نے کوشش بھی کی تھی برداشت کرنے کی۔ اگر میجر آنند کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتا کہ بنا لباس کے برف پر چت لیٹنے کے باوجود عائشہ کے چہرے پر تکلیف کے آثار عنقا تھے لیکن میجر آنند کی بات اور تھی۔ اسرائیلی فوج کا تربیت یافتہ یہ افسر کسی سے متاثر ہونے کی بجائے متاثر کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ علی کو شاید انداذہ نہیں تھا کہ میجر آنند کوئی عام افسر نہیں۔ اگر اسے میجر آنند کے ارادوں کی اس وقت ہی خبر ہو جاتی تو وہ نہ صرف سب کچھ بتا دیتا بلکہ اپنی نازک اندام زوجہ کو بھی میجر آنند کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے سے بچا لیتا۔ عائشہ کے ساتھ جو کچھ اس کے اپنے گھر میں ہوا تھا، اس کے بعد اس کیلئے یہ بات غیر متوقع نہیں تھی کہ بھارتی فوجی اب اس کی عزت لوٹنا چاہیں گے اور اگر اس لمحے دروازے پر دستک نہ ہوئی ہوتی تو اب تک شاید عائشہ کی عزت تار تار ہو بھی چکی ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ جب میجر آنند نے اپنی پتلون کی زپ کھول کر عضو تناسل باہر نکالا تو عائشہ نے اپنے آپ کو آنے والے حالات کیلئے ذہنی طور پر تیار کر لیا۔
میجر آنند اگرچہ جسامت میں ان تینوں بھارتی فوجیوں سے کم تھا جو عائشہ کے گھر تلاشی لینے گئے تھے لیکن اس کا عضو تناسل غیر معمولی طور پر ان تینوں سے بڑا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ عائشہ نے ان تینوں میں سے صرف ایک فوجی کا ہی عضو تناسل دیکھا تھا لیکن ان تینوں کی جسامت تقریباً ایک ہی جیسی تھی لہذا قرین قیاس یہی تھا کہ ان کے عضو تناسل بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک جیسے ہی ہوں گے۔ البتہ میجر آنند کے عضو تناسل کی لمبائی چوڑائی اور مجموعی ہئیت نے عائشہ کو حیران اور پریشان ضرور کیا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں ایک مرتبہ پھر اللہ سے ثابت قدمی کی دعا مانگی۔ میجر آنند عضو تناسل پتلون سے باہر نکالے عائشہ کی جانب بڑھ رہا تھا اور عائشہ کا دل تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔
جن چیخوں کا میں نے اوپر ذکر کیا تھا ان کی وجہ میجر آنند کا یہی قوی عضو تناسل تھا۔ دراصل میجر آنند نے عائشہ عائشہ کو بالوں سے پکڑ کر اوپر کھینچا تھا اور عائشہ اس سے اٹھنے والی تکلیف پر تلملانے ہی لگی تھی کہ میجر آنند نے اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ میجر نے اپنا عضو تناسل اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑ کر اسے عائشہ کے چہرے پر رسید کر دیا تھا۔ عائشہ کو ایسا لگا تھا جیسے کسی نے ہاتھ ڈھیلا کر کے تھپڑ مارا ہو۔ میجر آنند نے جب اپنا عضو تناسل پتلون سے نکالا تو اس کی نظریں علی پر تھیں جو نظریں جھکائے زمین کو گھورے جا رہا تھا اور کسی گہری سوچ میں غرق معلوم ہوتا تھا۔ میجر آنند کا عضو تناسل ابھی تناؤ کی حالت میں نہیں تھا حالانکہ عائشہ کو ننگی حالت میں دیکھنے پر وہاں موجود تمام بھارتی فوجیوں کے عضو تناسل راڈ کی مانند کھڑے تھے اور کئی فوجیوں کو تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مزید کچھ دیر عائشہ کو ایسے ہی دیکھنے پر ان کیلئے عضو تناسل سے مادہ منویہ کا اخراج روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی تھی کہ جو لوگ عائشہ کو بہن بیٹی کہتے آئے تھے، عائشہ کو ننگی دیکھ کر وہ بھی خود پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس میں عائشہ سے ذیادہ ان کا اپنا قصور تھا کیونکہ وہ بھی نظریں چرا کر بار بار عائشہ کو دیکھنے سے باز نہیں آ رہے تھے۔ ایسے میں عضو تناسل میں تناؤ آنا قدرتی بات تھی۔ بھارتی فوجیوں کیلئے تو عائشہ میں دلچسپی اس لئے بھی زیادہ تھی کہ انہوں نے مسلمان خواتین کو ہمیشہ برقعے اور نقاب میں ملبوس ہی دیکھا تھا جس کی وجہ سے ان کا تجسس ناقابل یقین حد تک بڑھ چکا تھا کہ آخر ایسا کیا ہے جس کو چھپانے کیلئے یہ خواتین اتنا تردد کرتی تھیں۔ ظاہر ہے جب ایسی پوشیدہ چیز سب کے سامنے عیاں ہو جائے تو پھر جذبات میں تلاطم فطرتی تھا۔ عائشہ کا ملکوتی حسن سونے پر سہاگے کا کام دے رہا تھا۔ ایسا مرمری اور دودھیا جسم تھا کہ مسلمان دیکھیں تو حور کا تصور ذہن میں آئے اور ہندو دیکھیں تو دیوی سے کم درجہ نہ دیں۔ ان سب عناصر کی موجودگی میں اگر کسی نے خود پر قابو رکھا تھا تو وہ میجر آنند ہی تھا۔ عائشہ کا بے مثال حسن بھی اس کے عضو تناسل میں تناؤ پیدا کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پنڈت اور سوامی دونوں ہی وہاں موجود بھارتی فوجیوں میں جسامت کے لحاظ سے نمایاں معلوم ہوتے تھے لیکن میجر آنند کا لٹکا ہوا عضو تناسل دیکھ کر نا کے چہروں پر حیرت دیدنی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ میجر آنند کا عضو تناسل کسی جوان خچر کے عضو تناسل سے مشابہت رکھتا تھا تو یہ غلط نہ ہو گا۔ اگر ترازو میں اس لٹکے ہوئے عضو تناسل کا وزن کیا جاتا تو کسی صورت اس کا وزن ایک ہزار گرام سے کم نہ آتا اور یہی ایک ہزار گرام وزن والا عضو تناسل جب عائشہ کے انتہائی نازک چہرے پر پڑا تو بے اختیار اس کے منہ سے بھیانک چیخ نکلی جس نے علی کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ نظریں اٹھا کر اپنی نازک اندام پریوں جیسی بیوی کو دیکھے۔ عائشہ جس نے صبر و تحمل اور استقامت کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا وہ میجر آنند کے عضو تناسل کا ایک تھپڑ بھی برداشت نہ کر پائی تھی۔ ظاہر ہے اس کیلئے غیر معمولی قوت ارادی کی ضرورت تھی اور قوت ارادی مضبوط تب ہی ہوتی ہے جب انسان مشکل حالات کا سامنا کرے۔ عائشہ نے تو زندگی میں آسائشیں ہی دیکھی تھیں لہذا اس کی قوت ارادی بھی کمزور تھی۔ ایسے میں وہ اللہ کو نہ پکارتی تو کیا کرتی۔ میجر آنند کے عضو تناسل سے تھپڑ کھانے کی تکلیف اس لئے بھی ذیادہ تھی کہ گھر میں ایک بھارتی فوجی اس کے منہ میں عضو تناسل بے رحمی سے داخل کر چکا تھا اور گھر سے یہاں آتے ہوئے بھی ان تینوں بھارتی فوجیوں نے عائشہ کو متعدد مرتبہ تھپڑ رسید کئے تھے۔ چہرے پر بھی اور جسم کے باقی حصوں پر بھی۔
عائشہ نے چیخ مار کر جتنی جلدی خود پر قابو پایا تھا، اس کی داد نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ چیخ مکمل ہونے پر عائشہ نے بجائے رونے دھونے اور چیخ و پکار کے اللہ کو پکارنے کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے قرآن مجید کی مقدس آیات کی تلاوت بلند آواز میں شروع کر دی۔ سورۃ رحمن جسے قرآن کی دلہن بھی کہا جاتا ہے، اس کی آیات کی تلاوت کا اثر جادوئی تھا۔ عائشہ کو ایسا لگا جیسے اس کی تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کے زخم مندمل ہوتے جا رہے ہوں۔ جہاں عائشہ کو قرآنی آیات کی تلاوت سے سکون حاصل ہوا تھا وہیں میجر آنند پر بھی قرآنی آیات کا اثر ہوا تھا لیکن یہ اثر الٹا ہی تھا۔ اس کا عضو تناسل جو اب تک عائشہ کے جسم کے جلوؤں کے باوجود سویا ہوا تھا، سورۃ رحمان کی تلاوت سن کر ایک دم سے مکمل تن گیا۔ نہ جانے ان آیات میں ایسا کیا تھا جس نے میجر آنند کے عضو تناسل کو تن جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ میجر آنند خود بھی حیران تھا کہ عائشہ بھی وہی، اس کا جسم بھی وہی، اس کی آواز بھی وہی، آخر ان آیات میں ایسا کیا تھا کہ اسے اپنے عضو تناسل پر قابو نہ رہا۔ شاید یہ معاملات ہی ایسے تھے کہ دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور لوگ انہیں نہ سمجھ سکتے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا میں اپنا فرض سمجھتی ہوں کہ اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف حقائق کو قارئین کے سامنے اس طرح پیش کرنا ہے کہ ایک ایک لمحہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم جائے لیکن بحیثیت مسلمان بعض اوقات اپنے جذبات پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں بھارتی فوجیوں کے مسلمانوں اور خصوصاً مسلمان خواتین پر کئے گئے مظالم کی مذمت کرتی ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان بھارتی فوجیوں کے جذبات کی قدر بھی کرتی ہوں کیونکہ آخرکار ہیں تو وہ بھی انسان ہی اور کسی نہ کسی کے احکامات کے تابع ہی کام کرتے ہیں لہذا میں انفرادی طور پر بھارتی فوجیوں کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی میری تحریر کا مقصد ہندومت کو کسی طور کمتر مذہب ثابت کرنا ہے۔ اگر کسی ہندو کی دل آزاری ہوئی تو میں اس کیلئے دل سے معذرت چاہتی ہوں۔
یکے بعد دیگرے وہاں موجود تمام بھارتی فوجیوں نے عائشہ کی عزت لوٹی۔ میجر آنند اگرچہ فولادی اعصاب کا مالک تھا لیکن عائشہ کی اندام نہانی کی تنگی برداشت نہ کر پایا۔ جلدی ڈسچارج ہونے کی دوسری وجہ عائشہ کا قرآن مجید کی تلاوت کا انداز تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس ساری صورتحال سے ذرہ برابر بھی ناخوش نہیں بلکہ لطف اندوز ہو رہی ہے۔ میجر آنند کے عائشہ سے علیحدہ ہونے پر اس نے بھارتی فوجیوں کو اشارہ کیا کہ اب ان کی باری ہے۔ ان فوجیوں کا خیال تھا کہ میجر آنند کے لمبے اور موٹے عضو تناسل نے عائشہ کی اندام نہانی کو کھول دیا ہو گا لیکن ان سب کا اندازہ اپنی باری آنے پر غلط ثابت ہوا تھا۔ کئی فوجی تو ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں ڈسچارج ہو گئے۔ یہاں یہ بتانا بھی میں انتہائی ضروری سمجھتی ہوں کہ بعض لوگ ریپ کے دفاع میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ لڑکی نے بھی ریپ کے دوران خوب مزے لئے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے لڑکی دوران ریپ ڈسچارج ہوئی ہے۔ ساتھ ہی یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ دوران ریپ لڑکی جس قسم کی آوازیں نکال رہی تھی ان سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے لڑکی بھی برابر لطف اندوز ہو رہی ہے۔ یہ دونوں دلائل لغو اور باطل ہیں۔ دوران ریپ لڑکی کے منہ سے آوازیں نکلنا اور لڑکی کا ڈسچارج ہونا قدرتی امر ہیں۔ اس کا لڑکی کی رضامندی سے کوئی تعلق نہیں۔ شاید یہ بات مردوں کیلئے سمجھنا مشکل ہو لیکن خواتین میری اس بات سے اتفاق کریں گی کہ زنانہ شرمگاہ میں کوئی بھی چیز داخل کی جائے اور اگر نشانہ ٹھیک ہو تو خود پر قابو رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بالفرض اگر ان دلائل کو درست مان لیا جائے تو پھر تو عائشہ کا ریپ کوئی زیادتی ہی نہیں بلکہ یہ تو بھارتی فوجیوں کا حسن سلوک ثابت ہوا کہ جنہوں نے عائشہ کو اس قدر لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ نہ صرف عائشہ بلکہ لاکھوں خواتین بالخصوص مسلمان خواتین کا روزانہ بے دردی سے ریپ کیا جاتا ہے۔ اگر اوپر بیان کئے گئے دونوں دلائل درست تصور کر لئے جائیں تو پھر ریپ جرم ہی نہیں بنتا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ریپ ناقابل معافی جرم ہے اور یہ دونوں دلائل غلط ہیں۔ میری رائے حتمی نہیں ہے اور اگر کسی کو اختلاف ہو تو مجھے غلط ثابت کر دیں، میں اپنی رائے تبدیل کر لوں گی۔
بہرحال، بھارتی فوجیوں نے عائشہ کا خوب ریپ کیا۔ گاؤں والے خاموش تماشائی بن کر سب کچھ دیکھتے رہے۔ کچھ کے دل میں ہمدردی تھی اور کچھ گھٹیا لوگ اپنی اس مسلمہ بہن کی سرعام نیلامی عزت پر بھی بجائے پشیمان ہونے کے مزے لے رہے تھے۔ شاید ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے اپنے گھروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ عائشہ کا بیٹا حسنین بھی کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر اب سنجیدگی تھی۔ آغاز میں جب عائشہ رو رہی تھی تو حسنین کو بھی رونا آ گیا تھا لیکن جیسے جیسے عائشہ نے اپنے آپ کو سنبھالا تھا ویسے ویسے حسنین کا رونا بھی تھمتا گیا تھا۔ آخر کو تھا تو بچہ ہی نا۔ بھارتی فوجیوں نے بھی شاید اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت عورت نہیں دیکھی تھی۔ تب ہی ان کی ہوس ٹھنڈی ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔ ہر فوجی نے عائشہ کو کم از کم تین بار اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ میجر آنند نے جب اپنے فوجیوں کو اشارہ کیا تھا تو آغاز میں وہ سب کسی حد تک ڈسپلنڈ تھے لیکن تین چار فوجیوں کے بعد ان سے رہا نہیں گیا اور ایک ہی وقت میں عائشہ کو ایک سے زیادہ بھارتی فوجیوں کو اپنے جسم پر برداشت کرنا پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بھارتی فوجیوں کے نزدیک عائشہ کوئی انسان ہے ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کی تکلیف کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں تھا۔ ایک فوجی اس کی اندام نہانی میں اپنا عضو تناسل ڈال کر جھٹکے مار رہا ہوتا تھا تو دوسرا اس کے منہ یہی عمل دہرا رہا ہوتا تھا۔ تیسرا عائشہ کے پستانوں کو ایسے جھنجھوڑ اور بھنبھور رہا ہوتا تھا جیسے وہ انہیں چبا ہی ڈالے گا۔ عائشہ کے جسم پر لاتعداد نشانات نمودار ہو گئے تھے۔ کاٹنے کے تھپڑ کے نشانات علیحدہ جبکہ وہ نشانات علیحدہ تھے جو مادہ منویہ اس کے جسم پر چپکنے سے نمودار ہوئے تھے۔ چند بھارتی فوجیوں نے تو حد ہی کر دی تھی اور مادہ منویہ خارج کرنے کے بعد عائشہ کے جسم پر پیشاب بھی کر دیا تھا۔ علی کے پاس اب کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ ظاہر ہے اس کے فیصلے نے ہی عائشہ کو اس حال تک پہنچایا تھا اور اب فیصلہ تبدیل کرنے کی صورت میں بھی عائشہ کی تکلیف ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی سوچ کر علی نے اپنے فیصلے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دراصل علی کی سوچ بھی غلط نہیں تھی کیونکہ بھارتی فوجیوں سے بعید نہیں تھا کہ علی سے معلومات اگلوا کر بھی وہ عائشہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتے۔ اگر ایسا ہوتا تو علی کا درد دوگنا ہو جاتا کیونکہ اس طرح بیوی کے ساتھ ساتھ اس کی جہاد سے وفاداری بھی خطرے میں پڑ جاتی لیکن علی کی ساری بہادری اس وقت ہوا میں اڑ گئی جب مسلسل تین گھںٹے بھارتی فوجیوں کی ہوس اور بربریت کا نشانہ بننے کے بعد بھارتی فوجی عائشہ کو لٹی پٹی حالت میں وہیں چھوڑ گئے اور علی کو بکتر بند گاڑی میں ڈال کر چھاؤنی روانہ ہو گئے۔ عائشہ کو چند نوجوانوں نے سہارا دے کر گھر پہنچایا۔ وہ اتنی نڈھال ہو چکی تھی کہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلانا تو دور کی بات، زباں ہلانے پر بھی اسے شدید نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ اس بھیانک رات کا اختتام عائشہ کیلئے ابھی نہ ہوا تھا کیونکہ اس کا شوہر ہنوز غائب تھا۔ تین دن بعد علی کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ملی تو عائشہ کے بے چین دل کو کسی حد تک قرار آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس رات وادی پوش پورا کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں کسی خاتون کا ریپ نہ ہوا ہو۔ وادی چھوٹی ہونے کی وجہ سے سو کے لگ بھگ کل گھر تھے۔ اس درندگی کا تذکرہ عالمی میڈیا میں بھی ہوا۔ کئی عالمی نشریاتی اداروں نے عائشہ اور دیگر خواتین کے انٹرویو کئے لیکن بھارتی فوجیوں نے جو کرنا تھا وہ کر لیا تھا۔ بلاآخر کئی دہائیوں بعد بھارتی فوجیوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اس رات چند خواتین کا ریپ کیا گیا لیکن یہ تسلیم کرنے کے باوجود کسی فوجی افسر یا جوان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور آج بھی اس طرح کے واقعات کشمیر میں معمول کی بات ہیں۔

Please rate this story
The author would appreciate your feedback.
  • COMMENTS
Anonymous
Our Comments Policy is available in the Lit FAQ
Post as:
Anonymous
2 Comments
AnonymousAnonymous8 months ago

You are are a wonderful writer. You know the art of writing. You should write more but I would request you one thing. Try to avoid mentioning, religious words etc. as it may hurts people who belong to that religion. Try to limit it to erotic as much as possible. Since you know the art of writing, make it more detailed, engage in sexy conversation and dialogues etc. Other things are fine. All I enjoyed but not the part you started mentioning Qurani ayat etc. Holy verses to be avoided, in my opinion.

AnonymousAnonymousover 2 years ago

Indian soldiers r never rapist. Stop terrorism here

Share this Story

Similar Stories

(Part 1) پوش پورا An interfaith sex fantasyin Interracial Love
The Deccan Princess Ch. 01 A medieval erotica set in Hindustan.in Novels and Novellas
Circle of Eight Hindu/English mix language story about 8 friends.in Group Sex
Banged Like a Cheap Slut Four guys ruthlessly banged me like a cheap slut.in BDSM
A Cooking Affair What happens when wife leaves you alone with a maid?in Erotic Couplings
More Stories