ساس بنی دماد کی دلہن۔ پہلی قسط

Story Info
دلہن بھاگ گئی اور اسکی ماں کو اسکی جگہ رخصت کر دیا گیا
1.9k words
2.94
4.5k
1
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here
obablee
obablee
54 Followers

نوٹ: ببلی کے کردار سے جتنی بھی کہانیاں اب تک پیش کی گئی ہیں ان میں سے کچھ نا کچھ سچ زور ہوتا ہے باقی سب ڈرامائی تشکیل کی وجہ سے شامل کیا جاتا ہے۔ سب کہانیوں میں کردار کا اصل نام بدل کر ببلی رکھا جاتا ہے تا کہ کسی کی پرائیویسی ڈسٹرب نا ہو۔ اس کہانی کا مصنف قاری کے فیڈبیک کا بھوکا ہوتا ہے چاہے وہ مثبت ہو یا منفی۔ لہذا آپ سب سے گذارش ہے کہ مجھے فیڈ بیک ضرور دیں تاکہ میں کہانی کو بروقت شائع کرتا رہوں۔ شکریہ۔

ساس بنی دلہن
ببلی کے شوہر کا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے تھا۔ وہ بہت سخت گیر اور ظالم انسان تھا۔ خاندان اور خاندان سے باہر بہت سے لوگوں کے ساتھ اسکی درینہ دشمنی تھی۔ اسکا ایک بھائی بیرون ملک اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھا۔ ببلی کے شوہر نے گذشتہ بیس سالوں سے اپنے سگے بھائی کے ساتھ جائیداد کے تنازعہ پر ہرقسم کی بول چال اور رابطہ ختم کر رکھا تھا۔
حتیٰ کہ نا وہ اس کے بھائی کی شادی میں شریک ہوا تھا اور نا ہی آج تک اسکے بیوی اور بچوں سے ملا تھا۔ ببلی کا شوہر عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند سمجھتا تھا۔ وہ عورت کی بالکل بھی عزت اور احترام نا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ آج تک اس نے اپنی بیٹیوں کے سر پرباپ کی شفقت بھرا ہاتھ بھی نہیں رکھا تھا۔
اب کچھ تعارف ہو جائے اس کہانی کے بنیادی کردار کا۔ ببلی ایک چالیس سالہ شادی شدہ عورت تھی۔ وہ جسمانی لحاظ سے بالکل بھی چالیس سالہ عورت نہیں لگتی تھی۔ اسکی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک عامنہ جس کی عمر لگ بھگ بیس سال تھی اور دوسری ابھی دس سال کی تھی۔ عامنہ اور ببلی کی شکل اور جسمانی خدوخال تقریباً ایک جیسے تھے۔ وہ دونوں جڑواں بہنیں لگتی تھیں اور ایک دوسرے کے کپڑے وغیرہ بھی استعمال کر لیا کرتی تھیں۔ عامنہ اپنے باپ کے غصے اور طبیعت کی وجہ سے تھوڑی سی خودسر اور باغی لڑکی بن گئی تھی۔ وہ اپنے باپ کو خاطر میں نا لاتی تھی۔ ببلی ہر وقت بیٹی کے رویے سے پریشان رہتی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اسکا شوہرغصے میں اپنی بیٹی کو کوئی نقصان نا پہنچا دے۔
ایک دن ببلی کا شوہر گھر آیا تو اس نے بتایا کہ اسکا بڑا بھائی جو بیرون ملک رہتا ہے وہ آپسی دشمنی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کی شادی میری بیٹی عامنہ سے کرکے رشتہ داری کو ایک دفعہ پھر مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے بڑے بیٹے کے ساتھ طے کر دیا تھا اور اسے اپنی بیٹی کی فوٹو بھی بھیج دی تھی۔ ببلی کے جیٹھ اور اسکی فیملی کو عامنہ بہت پسند آئی تھی۔
مسلہ یہ تھا کہ عامنہ کسی اور کو پسند کرتی تھی۔ اس نے اپنی والدہ کے سامنے اپنے کزن کے رشتے کو رد کر دیا تھا۔ آمنہ کے انکار کا جب ببلی کے شوہر کو پتہ چلا تو اس نے اپنی بیٹی پر بہت تشدد کیا۔ اور ببلی سے کہا کہ عامنہ کو سمجھائو اورشادی کے لیے رضامند کرو ورنہ میں اسے گولی مار دوں گا۔ ببلی بہت زیادہ سہم گئی۔ اسے اپنے شوہر کی طبعیت کا پتا تھا وہ جیسا کہتا تھا ویسا ہی کرتا تھا۔
ببلی نے اپنی بیٹی کو بہت سمجھایا پر وہ اپنی ضد پراڑی رہی اور بار بار گھر سے بھاگ جانے کی دھمکی دیتی رہی۔ ببلی نے اپنی بیٹی کی دھمکی کے بارے میں اپنے شوہر کو کچھ نہیں بتایا اور اسے بار بار یہی تسلی دیتی رہی کہ سب ٹھیک ہے۔ شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئی تھی۔ پروگرام کے مطابق ببلی کے شوہر کے بھائی کی فیملی پاکستان آ چکی تھی اور الگ گھر میں رہائش پذیر تھی۔ ببلی کی ابھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ شادی کی تقریب میں تین دن باقی تھے کہ ببلی کی والدہ وفات پا گئی۔ لہذا ببلی کو فوراً اپنے میکے روانہ ہونا پڑا۔ اس کے شوہر نے سختی سے منع کر دیا کہ کسی کو بھی اس فوتگی کے بارے میں مت بتایا جائے۔
ببلی کی عدم موجودگی میں شادی کی تیاریاں جاری رہیں۔ جس دن ببلی کی بیٹی کی رخصتی تھی اسی دن اسکی والدہ کا سوئم کا ختم تھا۔ لہذا ببلی نے ختم کے بعد نکاح کے وقت گھر واپس پہنچنا تھا۔ ببلی کی بیٹی کے سسرال والے ان کے گھر دو تین مرتبہ چکر لگے چکے تھے اور سب سے مل چکے تھے۔ ببلی کی ابھی تک ان میں سے کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ مہمانوں کوبہانا بنا کر یہ بتایا گیا تھا کہ ببلی اپنی بیمار ماں کے علاج کے سلسلے میں گھر پر موجود نہیں ہے۔
ببلی جب ںکاح سے کچھ دیر پہلے گھرواپس پہنچی اورجب عامنہ کو ملنے اس کے کمرے میں گئی تو وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ ببلی کو آمنہ کا ایک رقعہ لکھا ہوا ملا جس میں اس نے تحریر کیا تھا کہ وہ ایک لڑکا جس سے وہ محبت کرتی ہے اس کے ساتھ گھر سے بھاگ کر جا رہی ہے۔ رقعہ پڑھ کر ببلی کے ہاتھ تھر تھر کانپنا شروع ہو گئے۔ بارات آچکی تھی اور دلہن غائب تھی۔ ببلی نے ہمت کر اپنے شوہر کو کمرے میں بلایا اور سب بتا دیا۔ اسکا شوہر غصے سے پاگل ہو گیا اور ببلی کو ہی اچھا خاصا پیٹ ڈالا۔ اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ فی الحال اس وقت کو ٹالنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کو دوبارہ ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک شیطانی آئیڈیا آیا۔ اس نے اپنی بیوی ببلی کو غور سے سرسے لیکر پائوں تک دیکھا۔ وہ بھی کافی دفعہ اپنی بیوی اور بیٹی کو پہچاننے میں دھوکہ کھا جاتا تھا کیونکہ دونوں کی شکلوں میں مشاہبت بہت زیادہ تھی اور قد کاٹھ، رنگت اور آواز بھی تقریبا ایک جیسی تھی۔
اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ فوراً دلہن والے کپڑے پہن لے اور تیار ہو جائے۔ کسی کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے کہ آمنہ گھر سے بھاگ گئی ہے اور دلہن کے لباس میں ببلی ہے۔ ببلی کے سمجھ کچھ نا آیا تو اس نے شوہر سے پوچھا کہ آپ یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ میں دلہن کیسے بن سکتی ہوں۔ میری جگہ آپ کسی اور عورت کو دلہن بنا دے۔ ببلی کے شوہر نے کھا جانے والی نظروں سے اسکی طرف دیکھا اور غصیلے لہجے میں اسے اپنے منصوبے کہ بارے میں آگاہ کیا۔ یعنی جب تک آمنہ نہیں مل جاتی تب تک ببلی اسکی جگہ دلہن بن کر آمنہ بننے کا ناٹک کرتی رہے گی۔ اور ببلی اپنی ہر ممکن کوشش کر کے دلہے کو اپنے قریب نہیں آنے دے گی۔
ببلی کی سمجھ میں اپنے شوہر کی بات آگئی تھی۔ اور اسے یہ بھی تسلی ہو گئی تھی کہ اس کا شوہر آمنہ کو ڈھونڈ کر گولی نہیں مارے گا بلکہ اسے زندہ اس کے سسرال لا کر مجھ سے بدل دے گا۔
منصوبے کے مطابق سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا تھا اور ببلی اپنی بیٹی کی جگہ رخصت ہو کر اسکے دلہے کے ساتھ بیٹی کے سسرال آ گئی تھی۔ ابھی تک کسی کو بھی ببلی پر شک نہیں ہوا تھا۔ سب لوگ بشمول دلہا اسے آمنہ ہی سمجھ رہے تھے۔ ببلی بہت زیادہ گھبرائی ہوئی تھی۔ وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں اسکا جھوت پکڑا ہی نا جائے۔ ببلی دلہن کے لباس اور میک اپ میں بہت زیادہ خوبصورت اور سیکسی لگ رہی تھی۔ دلہا صاحب بار بار چور آنکھوں سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔ دلہا کا نام عامر تھا اوروہ بہت دراز قد اور کثرتی جسم کا مالک خوبصورت لڑکا تھا۔ گو کہ عامر کی پرورش مغربی ماحول اور کلچر میں ہوئی تھی لیکن وہ اپنے والدین سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے والد کے کہنے پر اس شادی کے لیے رضامند ہو گیا تھا۔ لیکن بعد میں جب اس نے عامنہ کی فوٹو کو دیکھا تو اسکا مشرقی حسن اسے بہت بھایا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ بے چینی سے اپنی سہوگ رات کا انتظار کر رہا تھا۔ حالانکہ اس سے پہلے عامر کی بہت سی مغربی گرل فرینڈ رہ چکی تھیں اور سب کے ساتھ اسکا جسمانی تعلق بھی رہا تھا۔ لیکن مشرقی لڑکی کی شرم و حیا آج کل اسے بہت اٹریکٹ کر رہی تھی۔ جب سے اس نے آمنہ کو دیکھا تھا اسکا تجس بہت زیادہ بڑھ چکا تھا۔ وہ اس مشرقی حسن کو جلد از جلد بے نقاب کرنا چاہتا تھا تا کہ اس کے تجسس کو تشنگی مل سکے۔
ببلی اپنی زندگی میں دوسری دفعہ دلہن بنی تھی۔ بیٹی کی جگہ دلہن بن کر اسے بہت عجیب لگ رہا تھا۔ وہ بہت زیادہ پریشان تھی۔گھر میں ہرطرف لوگ جمع تھے اور اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں کون کون اسے مخاطب کر رہا تھا مبارکباد دے رہا تھا اور اسے ڈھیروں سلامیوں کی شکل میں پیسے دے رہا تھا۔
آخر کار ببلی کو دلہن کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ کمرہ بہت بڑا تھا اور ہر سوں غلاب کے پھول ہی پھول اور اسکی خوشبو دونوں پھیلے ہوئے تھے۔ بیڈ پر خوبصورت مسہری سجائی گئی تھی۔ ببلی پریشانی کے عالم میں پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی اور اپنی بیٹی کو کوس رہی تھی۔ کہ اگر وہ انتہائی قدم نا اٹھاتی تو اس وقت وہ یہاں بیٹھی ہوتی اور سب لوگ اپنے اپنے گھر سکون سے بیٹھے ہوتے۔ ببلی سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں اسکا شوہر آمنہ کو ڈھونڈ پائے گا یا نہیں۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں بھی کر رہی تھی کہ اسکی بیٹی جلد مل جائے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ ببلی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ عامرکمرے میں داخل ہوا۔ ببلی فوراً گھونگھٹ نکال کر بیٹھ گئی۔ ببلی کا دل اتنا زور سے ڈھڑک رہا تھا کہ شاید ابھی سینے سے نکل باہر آجائے۔ عامر پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس نے دھیرے سے ببلی کا گھونگھٹ اٹھایا۔ اس کی ٹھوڑی سے پکڑ کرچہرے کو تھوڑا اوپر کیا۔ ببلی کی آنکھیں شرم و حیا سے جھکیں ہوئی تھیں۔ عامر کو اپنی دلہن پر بہت زیادہ پیار آیا اور اس نے آگے بڑھ کر ببلی کے رس بھرے ہونٹوں پر اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کر دی۔ ببلی کے پورے جوسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ اسکا پورا جسم لرز اٹھا۔ عامر اپنی دلہن کا یہ نظار دیکھ کر جھوم اٹھا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک سونے کی انگھوٹی نکالی اور ببلی کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انگلی میں ڈال دی۔ جیسے ہی اس نے ببلی کا ہاتھ پکڑا ببلی کے پورے جسم میں مزید سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ اسکے پورے جسم میں دوبارہ لرزش شروع ہو گئی۔ عامر نے اسکی پریشانی کو محسوس کر لیا اور اسکے ہاتھوں کو چومتے ہوئے ریلکس ہونے کو کہا۔ ببلی کی گھبراہٹ اور شرم عامر کے جنسی ہیجان کر بڑھا رہی تھی۔ ویسے بھی اس نے ایک نفیس سی ولایتی شراب بھی نوش کی ہوئی تھی۔ شہوانیت اس پر پوری طرح حاوی ہو چکی تھی۔
ببلی گھبراہٹ میں اپنے داماد سے ابھی تک مخاطب نہیں ہو پائی تھی۔ اسکی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ گھبراہٹ اور کپکپاہٹ کے باوجود ببلی کی چوت میں گیلا پن محوس ہو رہا تھا اور اسکی چھاتیاں اور اسکے نپل اکڑ گئے تھے۔ گناہ اور انجانے خوف سے اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہو چکے تھے۔
(کیا ببلی اپنے دماد کو اعتماد میں لے سکے گی یا اس سے اپنی سہاگ رات والی چودائی کروا لے گی؟ کیا آمنہ واپس آ جائے گی؟ کیا سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا؟ ان سب سوالات کے جواب کے لیے اگلی قسط کا نتظار کریں)

obablee
obablee
54 Followers
Please rate this story
The author would appreciate your feedback.
  • COMMENTS
Anonymous
Our Comments Policy is available in the Lit FAQ
Post as:
Anonymous
3 Comments
aalya_karachiaalya_karachi7 months ago

it was very sweet you have to update it.

AnonymousAnonymousover 1 year ago

اس ویب سائٹ پر اردو میں کہانی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میں نے 4 اسٹار دیا ہے کیونکہ کہانی کا بلڈ آپ اچھا لگا۔

altaf_isbaltaf_isbalmost 5 years ago
next episode

waiting for next part...... pl post

Share this Story

Similar Stories

टेम्पो ड्राईवर टेम्पो ड्राईवर ने बड़े साहब की बीवी को फंसा लिया.in Loving Wives
मेरी बीवी और गाँव के लड़के My mature wife plays with two village teenagers.in Mature
Wife in Need Indeed for Her Needs Her submission to her needs.in Loving Wives
Vietnamese Wife Opens Up Young, shy, innocent, Vietnamese wife tries new things.in Interracial Love
Indian Wives Harem Bachelor forming harem of young wives.in Mind Control
More Stories