ہنی مون (part 2)

Story Info
couple's honeymoon turns adventurous!
11.5k words
4.75
1.6k
0

Part 2 of the 2 part series

Updated 06/09/2023
Created 03/24/2020
Share this Story

Font Size

Default Font Size

Font Spacing

Default Font Spacing

Font Face

Default Font Face

Reading Theme

Default Theme (White)
You need to Log In or Sign Up to have your customization saved in your Literotica profile.
PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

کسی کے سامنے ننگا ہونا بذات خود ایک مشکل عمل ہے لہٰذہ ننگے ہو کر بے تکلفی سے ایک دوسرے سے باتیں کرنا کسی ایسے شخص کے لئے جو ساری زندگی پاکستان جیسے ملک میں رہی ہو جہاں بازو ننگے کرنے پر بھی فساد کھڑا ہو سکتا ہے، کافی مشکل بلکہ تقریباً نا ممکن کام ہے. اس کے باوجود میں ننگی ہو گئی. سب کے سامنے ننگی ہونے کا حوصلہ نہ تھا مجھ میں. انجیلا کے ساتھ علیحدہ کمرے میں جا کر اپنے متوازن جسم کو کپڑوں کی قید سے آزاد کروایا. دل ہی دل میں یہ بھی شکر ادا کیا کہ میرے پیریڈز نہیں چل رہے تھے. میرا جسم اگرچہ انجیلا کے گورے چٹے جسم جیسا نہ سہی لیکن خدو خال کے لحاظ سے اس کے جسم سے کہیں بہتر تھا. میں نے ہمیشہ اپنی خوراک پر توجہ دی تھی تاکہ وزن زیادہ نہ بڑھے. یونیورسٹی لائف میں بھی میں روزانہ ورزش کیا کرتی تھی. انجیلا کے منہ سے اپنے جسم کی تعریف سن کر میرا حوصلہ بڑھا تھا. کپڑوں میں جب میں گھر سے بھر نکلا کرتی تھی تو ہمیشہ مردوں کی نظروں کا مرکز ہوا کرتی تھی. شائد اسکی وجہ میرا چست لباس بھی ہوا کرتا تھا. کوئی مانے یا نہ مانے یہ سچ ہے کہ ایک لڑکی یا خاتون کو اگر کوئی مرد گھورے تو اسے پتا چل جاتا ہے. آپکو میری یہ بات شائد سچ نہ لگے لیکن میں نے خود بار ہا محسوس کیا تھا کہ مردوں کے ٹکٹکی باندھ کر گھورنے پر میرے جسم میں ایک ایسا احساس ہوتا تھا جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی. یہاں موجود خواتین میری بات سے اتفاق کریں گی. کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کوئی مجھے ہوس ناک نظروں سے گھورے یا ویسے ہی نگاہ ڈالے، مجھے معلوم ہو جاتا تھا. کپڑوں میں ملبوس ہونے کے باوجود نوے فیصد لوگوں کی نظروں میں ہوس ہی ہوتی تھی. کپڑے اتار کر جب شہریار اور مارٹن کے سامنے آی تو قدرتی طور پر ان دونوں کی نظریں میرے ننگے بدن پر پڑیں. اپنے شوہر کا تو مجھے اندازہ تھا اور اسکی نظریں مجھے ہمیشہ اچھی معلوم ہوتی تھیں لیکن مارٹن کا میرے جسم کو دیکھنا ایک نیا ہی احساس تھا. اس کی نظروں میں ہوس نہیں تھی یا کم از کم مجھے تو بلکل بھی محسوس نہ ہوئی. اگر ہوس ہوتی تو کچھ اس کا اثر اس کے لنڈ پر بھی تو پڑتا نا. لنڈ تو اسکا ویسے ہی لٹکا رہا تھا. پہلی بار کسی اجنبی مرد کی نظریں میرے مکمل ننگے بدن پر پڑی تھیں اور میں یہی توقع کر رہی تھی کہ مارٹن بھی انسان ہی ہے اور انسان ہونے کے ناطے میرے سیکسی بدن کو دیکھ کر اس میں جنسی جذبات مشتعل تو ہوں گے ہی. سچی بات ہے کہ مجھے اپنے جسم کے پرفیکٹ ہونے پر اتنا یقین تھا کہ مارٹن کا لٹکا لنڈ اور اس کی ہوس سے خالی نظریں دیکھ کر مجھے کسی قدر مایوسی بھی ہوئی تھی. مارٹن کی نظریں بس ایسی تھیں کہ جیسے وہ میرے جسم کی خوبصورتی پر حیران تو ہے لیکن اس حیرانی کا تعلق میرے جنسی اعضاء سے نہیں بلکے اوور آل جسم سے ہے. میں شہریار کے پہلو میں صوفے پر بیٹھ گئی. صوفے پر اکٹھے بیٹھنے سے ہمارے بازو اور ٹانگیں بھی ایک دوسرے سے مس ہو رہی تھیں. مارٹن نے میرے صوفے پر بیٹھتے ہی انجیلا والے کلمات دہراۓ یعنی تعریف کی. مجھے اس کے منہ سے اپنے جسم کی تعریف سن کر خوشی ہوئی. کمرے سے نکلتے وقت میں کسی حد تک کنفیوز تھی لیکن جب مارٹن کا رویہ دیکھا تو کنفیوزن کافی کم ہو گئی تھی.
یہ حقیقت تھی کہ اگر مارٹن اور انجیلا کا رویہ اتنا دوستانہ نہ ہوتا تو شائد میں کبھی بھی ننگی ہونے پر راضی نہ ہوتی کجا یہ کہ خود ننگی ہونے کی پیشکش کی. یہ ان کی مہمان نوازی ہی تو تھی جس کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں میں یہ بھول ہی گئی کہ یہاں سب ننگے بیٹھے ہیں. دراصل ان کے بات کرنے کا طریقہ ہی ایسا تھا کہ مخاطب کو مسحور کر کے رکھ دیتے تھے. حتی کہ حساس موضوعات پر بات چیت بھی ایسے انداز میں کی جاتی تھی کہ باتوں میں جنسی عنصر ناپید تھا. میں چونکہ بہت متجسس تھی اور یہاں کھل کے سب باتیں ہو رہی تھیں تو مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور میں نے اپنے ذہن میں آنے والے سوالات ان کے سامنے رکھ دیے. اگرچہ شہریار سے میں پہلے ہی ان سوالات کے جوابات لے چکی تھی اور کسی حد تک ان سے مطمئن بھی تھی لیکن پھر بھی میں خود کو روک نہ سکی.
سب سے بڑا سوال تو یہ تھا کہ ننگے پن کو سیکس سے علیحدہ کیسے کیا جائے کیوں کہ ہمارے جنسی اعضاء کے مقصد میں سیکس بھی شامل ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ مخالف جنس کے ننگے بدن کو دیکھ کر انسان کے جنسی جذبات بیدار ہوتے ہیں لہٰذہ ان جذبات کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے.
میرے سوال پر انجیلا اور مارٹن دونوں ہی مسکرا اٹھے. دراصل میری توجہ سامنے بیٹھے میزبانوں کی طرف تھی اور مجھے اس بات کا احساس ہی نہ ہوا تھا کہ شہریار کا بدن میرے بدن سے مس ہو رہا ہے اور اس وجہ سے شائد اس کے جذبات بھڑک اٹھے تھے. اسکا تنا ہوا لنڈ اس بات کا سب سے بڑا گواہ تھا. شہریار تب ہی اپنے ہاتھ لنڈ کے سامنے رکھ کر بیٹھا ہوا تھا تاکہ لنڈ کی سختی کو چھپا سکے. مارٹن اور انجیلا چونکہ بلکل سامنے بیٹھے تھے اسلئے چھپانے کے باوجود شہریار کا لنڈ ان کی نظروں سے مکمل پوشیدہ نہیں تھا. مارٹن نے مزاقاً کہا کہ شائد میں نے یہ سوال پوچھا ہی اس لئے ہے کہ میرے اپنے شوہر کے لئے ہی خود پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے. شہریار بیچارہ اس مزاق پر ہنسا تو تھا لیکن دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھا. میں اس کے جذبات اچھی طرح سے بھانپ سکتی تھی. بیشک شادی کو کچھ ہی دن ہوے تھے لیکن واقفیت اس سے پہلے کی تھی. میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ شہریار نے تو مجھے بتایا تھا کہ وہ لمبے عرصے سے ننگے پن کو اپناے ہوے ہے لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو کیا وہ اتنی سے دیر میں اپنے لنڈ پر قابو کھو بیٹھتا؟ یا پھر شائد میری موجودگی سے نروس ہو رہا ہے. دوسری وجہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی تھی. اس لئے کہ مجھے ننگی دیکھ کر شہریار کا لنڈ بہت جلدی تن جاتا تھا. یہ بات میں علیحدگی میں کئی مرتبہ محسوس کر چکی تھی.
بہرحال، مارٹن نے میرے سوال کا جواب دینے سے پہلے مجھے سمجھایا کہ میں نے سوال میں ایک غلطی کر دی ہے. غلطی یہ تھی کہ میں نے کہا تھا کہ مخالف جنس کے ننگے بدن کو دیکھنے سے جنسی جذبات مشتعل ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ نہیں تھی. حقیقت تو یہ تھی کہ کئی افراد مخالف جنس کی بجاے اپنی ہی جنس کو دیکھ کر زیادہ جوش محسوس کرتے ہیں. مجھے یہ بات معلوم تو تھی لیکن میں نے ہمیشہ یہی سمجھا تھا کہ یہ کام نیچرل نہیں ہے بلکہ خود ساختہ ہے. اب جب مارٹن نے وضاحت کی تو مجھے معلوم ہوا کہ کئی افراد قدرتی طور پر ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں مخالف جنس میں کوئی کشش محسوس ہی نہیں ہوتی خواہ مخالف جنس ننگی ہی کیوں نہ ہو. اس نے مجھے اپنے دوستوں کی مثالیں دیں جو کہ ہم جنس پرست تھے اور کئی مرتبہ شراب خانوں میں خوبصورت خواتین نے انہیں لائن مارنے کی کوشش کی لیکن ان پر اسکا اثر بالکل نہیں ہوتا تھا. اس کے برعکس کسی خوبصورت مرد کو دیکھ کر ان کے لنڈ بےچین ہو جاتے تھے. اسی طرح خواتین کے ساتھ بھی ہوتا ہے.
میرے لئے یہ معلومات نئی تھیں اس لئے میں کافی دلچسپی سے سن رہی تھی. شہریار بھی خوش تھا کہ توجہ میری طرف تھی سب کی کیوں کہ ننگا طرز زندگی اپنانے والوں میں لنڈ کا تناؤ اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا. مارٹن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے یہ بھی بتایا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کو دونوں جنسوں سے کشش محسوس کرتے ہیں، انہیں بائی سیکچول کہا جاتا ہے. مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے بات کاٹ کر پوچھ لیا: میں آپ کی باتیں سمجھ گئی ہوں لیکن اس بات کی اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ لوگوں کو اپنے جسم پر اتنا کنٹرول کیسے ہے؟ کیا آپ کے جذبات خواتین کو ننگی دیکھ کر جوش میں نہیں آتے؟ اگر آتے ہیں تو لنڈ کیوں کھڑا نہیں ہوتا؟ اور اگر نہیں آتے تو کیوں نہیں آتے؟ کیا آپ بس اپنی بیوی کی جانب ہی کشش محسوس کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟
میں نے تو سوالات کی بوچھاڑ ہی کر دی تھی لیکن ان دونوں کہ چہروں پر اب بھی سواے مسکراہٹ کے اور کچھ نہ تھا. ایسی مسکراہٹ جو کسی طالب علم کے بے وقوفانہ سوالات پر استاد کے چہرے پر آ جاتی ہے. شہرہے بیچارے کے ساتھ اچھی نہیں ہی. اس سے پہلے کی گفتگو کے دوران اسکا لنڈ سو گیا تھا لیکن جب میں نے اتنے بولڈ سوالات پوچھے تو شائد وہ اپنی بیوی کے منہ سے ایسی گفتگو سن کر پھر سے گرم ہو گیا. لیکن کسی کی بھی توجہ اس پر یا اس کے لنڈ پر نہیں تھی. انجیلا نے بتایا کہ کھانا تیار ہے باقی باتیں خانے کی میز پر کر لیتے ہیں. بچوں کو اس نے پہلے ہی کھانا کھلا کر اور دودھ پلا کر سلا دیا تھا. ہم سب خانے کی میز پر جا بیٹھے.
پتہ نہیں یہ مارٹن کی عادت تھی کہ ہر سوال کے جواب میں تقریر جھاڑ دیتا تھا یا پھر میری وجہ سے ایسا کر رہا تھا لیکن میں نے چپ چاپ اسکی باتیں سننے کو ہی ترجیح دی کیوں کہ میرے لئے ان میں سے نوے فیصد باتیں نئی تھیں. خاص طور پر ہم جنس پرست لوگوں کے بارے میں جو معلومات مارٹن کی زبانی معلوم ہوئیں انکی وجہ سے مجھے اپنی گزشتہ زندگی کے کی واقعات یاد آ گئے. ہو سکتا ہے یہ میرا شبہ ہی ہو لیکن میں نے یونیورسٹی میں یہ بات محسوس کی تھی کہ کئی لڑکیاں اپنی سہیلیوں سے حد سے زیادہ بے تکلف ہیں. سہیلیاں تو میری بھی تھیں اور ہمارے درمیان بھی ہر قسم کے مذاق کا سلسلہ چلتا رہتا تھا لیکن ایک دوسرے کو چھونا بس اس حد تک ہی تھا کہ سلام کے لئے ہاتھ ملانا یا پھر کبھی کبھار گلے ملنا. اب میرے ذہن میں یہ سرے واقعات گھومنے لگے کہ کچھ لڑکیاں واقعی ایسی تھیں جو ایک دوسرے میں اتنی گم تھیں کہ واشروم بھی ایک ساتھ جاتی تھیں. ایک لڑکی نادیہ خاص طور پر مجھے یاد تھی جس کی سہیلی کی شادی ہو گئی تھی تو نادیہ نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا. تب تو میں یہی سمجھی تھی کہ پکی دوستی کی وجہ سے اپنی سہیلی کی جدائی برداشت نہیں کر پا رہی لیکن اب میں اچھی طرح سے سمجھ گئی تھی کہ وہ معاملہ کیا تھا. یقیناً آپ لوگ بھی سمجھ گئے ہوں گے.
کھانے میں انجیلا نے جرمنی کی ایک خاص دش بنائی تھی جسے سپٹزل کہتے ہیں. اس میں پاستا سویاں اور انڈے استعمال کئے گئے تھے. کافی لذیذ تھی. اس کے علاوہ ہمارے پاکستانی ہونے کی وجہ سے اس نے بریانی بھی بنا رکھی تھی. اس کے ہاتھ میں کافی ذائقہ تھا. سچی بات ہے میں یہ توقع نہیں ر رہی تھی کہ انجیلا کی بریانی اتنی لذیذ بھی ہو سکتی ہے لیکن میری توقعات غلط ثابت ہوئیں لیکن صرف ایک یہی توقع غلط ثابت نہیں ہوئی تھی. میں نے تو ننگی ہوتے وقت بھی یہ ہی سوچا تھا کہ آج کی رات کافی مشکل ہو گی اور سارا وقت انتہائی اکورڈ انداز میں گزرے گا لیکن مارٹن اور انجیلا کی مہمان نوازی اور دوستانہ روئے نے سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا تھا اور میری کنفیوزن اب کانفیڈنس میں تبدیل ہو گئی تھی. میری سوچوں کا تانتا مارٹن کی آواز سے ہی ٹوٹا. اسکی مخاطب میں ہی تھی. بچپن سے اب تک میں ایسے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتی آئ تھی جہاں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پڑھتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں اور دوستی عام تھی. یہ ہی وجہ تھی کہ میں کبھی کسی مرد سے بات کرتے ہوے نہیں گھبراتی تھی بلکہ مرد مجھ سے بات کرتے ہوے گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے تھے. میں چونکہ جرنلزم کی طالبہ تھی اس لئے معلومات کی بھی میرے پاس کوئی کمی نہیں تھی. آج پہلا موقع تھا کہ میں خاموشی سے سن رہی تھی اور ایک مرد اپنی معلومات سے مجھے متاثر کئے جا رہا تھا. میں یہ ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی کہ مجھے اس موقع پر شدت سے احساس کمتری ہو رہا تھا. اچھی یا بری، میری یہ خواہش تھی کہ ہمیشہ گفتگو میں میرا پلا بھاری رہے. بہرحال اب کیا کیا جا سکتا تھا. ظاہر ہے کسی موضوع پر معلومات نہ ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے.
مارٹن نے مجھے سمجھانا شروع کیا تو انجیلا نے میری طرف دیکھ کر ایسے مسکراہٹ دی جیسے وہ اس ساری صورتحال کو انجواے کر رہی ہو. شہریار بھی کھانا کھاتے ہوے مسکراے جا رہا تھا. اس وقت تو مجھے ان کی مسکراہٹ کی وجہ سمجھ نہ آئ لیکن بعد میں مجھے شہریار نے بتایا کہ مارٹن کی عادت ہے کہ ہمیشہ بلا ضرورت بولتا چلا جاتا ہے اور دوسروں کو بور کرتا ہے. ہو سکتا ہے شہریار اور انجیلا بور ہو رہے ہوں کیوں کہ ان کے لئے یہ باتیں نئی نہیں تھیں لیکن میں مارٹن کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی. مارٹن نے جو باتیں کیں میں انہیں لفظ بہ لفظ تو یہاں بیان نہیں کر سکتی مختصر طور پر ہی بتا سکتی ہوں. اس نے مجھے بتایا کہ انسان اپنی تاریخ کے آغاز میں ننگے ہی رہتے تھے اور ایسے رہنے سے ہر گز شرمندہ نہیں ہوتے تھے. جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اس کے رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں رونما ہونی ہونی شروع ہو گئیں. ان ہی تبدیلیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے اپنا جسم ڈھانپنا شروع کر دیا اور اپنے جسم دیکھنے پر شرمندگی محسوس کرنے لگا. صدیوں سے جسم ڈھانپنے کی وجہ سے اب انسان ننگے پن کو ایک غیر قدرتی چیز تصور کرنے لگا ہے اور اس جسم ڈھانپنے کا دوسرا اثر یہ بھی ہوا کہ ننگے پن کو سیکس سے منسوب کر دیا گیا جو کہ سراسر غلط ہے. اب اگر انسان ننگے پن کو اپناتے ہیں تو انہیں ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جو بلکل قدرتی ہیں مثلا مردوں کے لئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ ان کا لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے لنڈ کو قابو نہیں کر پاتے. لنڈ کھڑا ہونے کی وجہ سے اگر کوئی یہ کہے کہ ننگا پن ہی ترک کر دینا چاہیے تو میں تو اسکو بے وقوف ہی کہوں گا کیوں کہ کسی بھی کام میں اگر کوئی مسلہ درپیش ہو تو مسلے کو حل کیا جاتا ہے نہ کہ کام کو ہی ترک کر دیا جائے.
میں مارٹن کے لیکچر سے کسی حد تک بور ہونے لگی تھی. کھانا بھی کھا چکی تھی لیکن وہ مسلسل بولے چلے جا رہا تھا. انجیلا میرے جذبات بھانپ گئی اسی لئے اس نے مارٹن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ڈارلنگ، کیوں نہ اب اپنے مہمانوں کو گھر کا ٹور کروایں.
اب تو واقعی میں بھی تنگ آ گئی تھی مارٹن کی باتوں سے. وہ واقعی ہر بات کے جواب میں اتنی غیر ضروری تفصیل بتاتا تھا کہ سننے والا تنگ ہی آ جائے.
پھر ہم نے ان کے ساتھ گھر کا ٹور کیا. انہوں نے ہمیں گھر کے کمرے دیکھیے. بیڈروم تو میں پہلے ہی دیکھ چکی تھی. بچوں کے سونے کا کمرہ بھی دیکھا جہاں دونوں ننھے بچے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے. ننگے سوتے ہوے اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ دل کیا ایک ایک بوسہ دونوں کو دوں. ویسے بچے تو ہر حال میں ہی پیارے لگتے ہیں خواہ ننگے ہوں یا نہ ہوں. ہم نے ان کا لان بھی دیکھا جہاں ایک بیڈمنٹن نیٹ لگا ہوا تھا. انجیلا نے کھیلنے کی دعوت دی لیکن میں نے معذرت کر لی. پتہ نہیں کیوں میرا دل اب واپس جانے کا کر رہا تھا. شہریار میری بیزاری سمجھ گیا اور ان سے اجازت لے کر ہم اپنے ہوٹل واپس آ گئے. واپسی سے پہلے مارٹن اور انجیلا نے ہمیں اپنے ساتھ ساحل سمندر پر جانے کی دعوت دے ڈالی جس پر میں نے انکار تو نہیں کیا لیکن حامی بھی نہیں بھری. کپڑے پہن کر ہم واپس ہوٹل آ گئے. کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں آ گئے جہاں شہریار مجھے چودنے کی تیاری کئے بیٹھا تھا.
شہریار نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے ہی پکڑ لیا تھا اور وحشیوں کی طرح چمیاں کرنے لگا تھا. اب جا کر اس کا جھاکا کھلا تھا. اپنی پسند کی شادی ہو یا والدین کی پسند کی شادی ہو، شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، اگر شادی کی پہلی رات دونوں کا سیکس کا پہلا تجربہ ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ شرم حیا ضرور آڑے آتی ہے. اگر لڑکا اور لڑکی دونوں پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کر چکے ہیں تو پھر تو یقیناً سہاگ رات میں بھی کھل کر سیکس کریں گے لیکن میرا اور شہریار کا معاملہ یہ نہیں تھا. میں حد سے زیادہ بولڈ ہونے کے باوجود شادی کی رات تک کنواری تھی اور شہریار نے بھی اپنی ورجنٹی یعنی کنوار پنے کو میرے لئے سنبھال کر رکھا تھا. ویسے مجھے شہریار پر اب فخر محسوس ہو رہا تھا کیوں کہ اب یہ جو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ننگا طرز زندگی اپنا چکا ہے. ظاہر ہے، لوگوں کی موجودگی میں ننگا ہونے پر کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر دل تو للچا ہی سکتا ہے. اور ویسے بھی انگریزوں کا کیا اعتبار. یہ لوگ تو شادی سے پہلے بھی سیکس کے قائل ہیں. ایسے میں شہریار کا سیکس سے بچے رہنا واقعی ہمت کا کام تھا. اگرچہ میری اپنی زندگی میں کئی مواقع ایسے آے تھے جب میں تقریباً بہک ہی گئی تھی لیکن پتہ نہیں کیسے سیکس سے خود کو محفوظ رکھ پائی.
یہ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سہاگ رات پر شہریار اور میں جتنے شرمیلے تھے اور جھجھک جھجھکک کر سیکس کر رہے تھے، اب ہم دونوں اس کے بلکل متضاد تھے اور اپنی پیاس کو بجھانے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار تھے. دراصل سہاگ رات ہر لڑکی کے لئے یادگار ہوتی ہے. لڑکوں کے لئے بھی ہوتی ہو گی لیکن لڑکی ہونے کے ناطے یہ میں یہ وثوق سے کہ سکتی ہوں کہ کنواری لڑکیوں کے لئے یہ رات سری زندگی بھولنا نہ ممکن ہوتا ہے. میری سہاگ رات کچھ اسلئے ہی زیادہ رومانٹک تھی کہ شہریار اور میں نے ساری رات باتیں کیں اور مارے شرم کے شہریار کچھ کر ہی نہیں پا رہا تھا. میں تو دل ہی دل میں یہ سوچ چکی تھی کہ کچھ نہیں ہونے والا لیکن نہ جانے شہریار میں اتنی ہمّت کہاں سے آ گئی کہ اس نے میرا بوسہ لے لیا ہونٹوں پر. میں نے شرم سے آنکھیں بند کر لی تھیں. اس کے بعد ہم نے سیکس کیا جو اپنی جگہ خود ایک مزاحیہ قصّہ ہے. مختصر یہ کہ شہریار نے میری شلوار اتاری لیکن پوری نہیں. گھٹنوں تک اتاری اور جب اپنا لند ڈالنے لگا تو لند کھڑا ہی نہ ہو. بیچارہ اتنا پریشان ہوا تھا. کمرے میں ہلکی روشنی والا بلب جل رہا تھا جس سے مجھے اس کے چہرے کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے. بری مشکل سے اس نے لند کھڑا کیا اور اندر ڈالا. مجھے اتنی تکلیف ہوئی کہ برداشت کرنے کے باوجود منہ سے آہ نکل گئی. آہ نکالنی تھی کہ وہ بیچارہ بھی ڈسچارج ہو گیا. اور ہم دونوں پھر سے لیٹ گئے. یہ رات کے آخری پہر ہوا تھا. نا تو میں سہاگ رات میں اس کا لنڈ دیکھ پائی نہ ہی وہ میرے ممے یا چوت دیکھ پایا. میں شادی سے پہلے یہ ہی سوچتی تھی کہ سہاگ رات پر نہ جانے کیسا سیکس ہو گا. پورن فلموں میں جو کچھ دیکھا تھا، میرا خیال تھا کہ وہی سب کچھ ہو گا کیوں کہ شہریار یورپ کا تعلیم یافتہ لڑکا اور میں بھی اچھی خاصی ماڈرن لڑکی، بھلا ہم دونوں میں کیا چیز آڑے آ سکتی ہے.
سچ تو یہ ہے کہ آج پہلا موقع تھا مارٹن اور انجیلا کے گھر سے واپسی پر جب شہریار نے اپنے کذبات کا اظہار اتنے وحشیانہ انداز میں کیا تھا. اس نے پلک جھپکتے میں مجھے کپڑوں سے آزاد کر دیا اور گود میں اٹھا کر بیڈ پر پٹخ دیا. میں خود تو پہلے ہی گیلی ہو چکی تھی. میرا خیال تھا کہ اب چدائی شروع ہو گی لیکن آج کا دن تو تھا ہی سرپرائز سے بھرپور. شہریار نے اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور چاٹنے لگا. اف. میں بتا نہیں سکتی کہ میں لذت کی کن بلندیوں پر تھی. شہریار کی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی اور میں پاگل ہو رہی تھی. اتنا مزہ تو لنڈ سے بھی نہیں آیا تھا. میں زیادہ در برداشت نہ کر سکی اور شہریار کا سر پکڑ کر اپنی چوت میں دبانے لگی. شہریار بھی مکمل وحشی بنا ہوا تھا اور چوت کو ایسے چاٹ رہا تھا جسے اس میں سے شہد نکل رہا ہو. بمشکل مجھے دو منٹ لگے ہوں گے کہ میں ڈسچارج ہو گئی. لیکن شہریار تو ابھی شروع ہوا تھا. اس نے میرے ڈسچارج ہونے پر بھی بس نہیں کی بلکہ کھڑے ہو کر اپنا لنڈ میری چوت میں گھسا دیا. ایک مرتبہ تو میری چیخ ہی نکل گئی. اس کا انداز ہی ایسا تھا. جیسے پورن فلموں میں چدائی ہوتی ہے بلکل ویسا ہی. اتنی زور زور سے جھٹکے مار رہا تھا کہ ڈسچارج ہونے کے باوجود میں پھر سے لطف اندوز ہونے لگی تھی. میرے منہ سے بھی مسلسل آہ آہ کی آوازیں نکل رہی تھیں. بلآخر کچھ دیر میں ہم دونوں ایک ساتھ ڈسچارج ہوے اور شہریار میرے اوپر ہی لیٹ گیا. اس رات ہم نے تین مرتبہ سیکس کیا اور اس کے علاوہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو منہ سے ڈسچارج بھی کروایا. پہلی بار میں نے شہریار کی منی کا ذائقہ چکھا اور مجھے اچھا بھی لگا. شاید ہم دونوں اگر تھکے نا ہوتے تو مزید سیکس بھی کرتے لیکن تھکاوٹ شہوت پر غالب آ گئی اور ایک دوسرے سے لپٹ کر نیند کی وادی میں جا پہنچے.
مارٹن، انجیلا اور ان کے دونوں بچوں کے ہمراہ ساحل سمندر کی سر میری زندگی کے چند منفرد ترین واقعات میں سے ایک ہے. اس ایک واقعے نے میری آنے والی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے. ہر ایک انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا ان کی انفرادی زندگیوں پر اثر نہ قابل زائل ہوتا ہے. ایسے واقعات خوشگوار بھی ہوتے ہیں اور نا خوشگوار بھی. میرے لئے تو یہ واقعہ خوشگوار ہی تھا. اس واقعے نے میرے ذہن میں نیوڈ زم سے متعلق تمام شکوک شبھات رفع کر دیے اور میں نے دل و جان سے اپنی بقیہ زندگی نیو ڈزم کے مطابق گزارنے کا تہیہ کر لیا. شائد میرا بیان کرنے کا طریقہ اتنا مسحور کن نہیں ہے یا پھر شائد اس قسم کے واقعات کو بیان کرنا ہے ہی مشکل کیوں کہ میں اپنے جذبات کا مکمل عکس اور بیتے واقعات کا سو فیصد احوال اس تحریر میں نہیں ڈھال پا رہی. اگر باریک سے باریک تفصیل بیان کروں تو آپ لوگ بور ہوتے ہیں، نا کروں تو پھر لکھنے کا مزہ نہیں آتا. بہرحال، کوشش یہی ہے کہ مختصر طور پر ہی کچھ لکھ ڈالوں. ادھوری کہانی نا پڑھنے والوں کو پسند آتی ہے نا ہی لکھاری کو.
چھٹی کا دن تھا. انجیلا اور مارٹن نے ہمیں گھر سے پک کیا. ان کے پاس ایس یو وی گاڑی تھی جس میں کار سے زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے. میں اور انجیلا پچھلی سیٹ پر جوزف کے ساتھ بیٹھ گئیں. چھوٹی بیٹی کو وہ اپنے ساتھ نہیں لے کر آے تھے بلکہ گھر پر ہی اس کے لئے بے بی سٹر کا انتظام کر دیا تھا. جوزف بہت ہی کیوٹ بچہ تھا. میں نے اس سے ہاتھ ملانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا لیکن وہ تو آگے بڑھ کر مجھ سے لپٹ ہی گیا. یاد رہے کہ ہم سب ننگے ہی تھے. جرمنی میں ننگے ہو کر سڑکوں پر گھومنا تو ممنوع ہے لیکن اپنی گاڑی کے اندر آپ ننگے رہ سکتے ہیں خواہ باہر سے نظر ہی کیوں نا آے. جوزف کی اس جپھی نے میرے پورے جسم میں جنجھناہٹ کی ایک لہر پیدا کر دی تھی لیکن میں نے فورا ہی اپنے آپ کو سنبھالا اور چہرے پر ایسے تاثرات نا آنے دیے جن سے پتہ چلتا کہ بچے سے گلے ملنے پر ہی میں خود پر قابو نا رکھ سکی. میرے نپلز اگرچہ سخت ہو گئے تھے. باتیں کرتے کرتے وقت کا پتہ بھی نا چلا اور ہم پہنچ بھی گئے. پہلی بار مجھے پتہ چلا کہ ساحل سمدر پر پکنک کیسے منائی جاتی ہے. کراچی کے ساحل پر سینکڑوں مرتبہ جانے کے باوجود کبھی پنڈلیوں سے اوپر کے کپڑے گیلے نہیں ہونے دیے تھے. بچپن کی بات الگ تھی. تب تو ہم سب کزنز سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہی کپڑے اتار دیتے تھے اور صرف ایک نیکر میں لہروں کے پانی سے خوب کھیلتے تھے. بڑے ہونے پر ایسے اچھل کود تو ختم ہو گئی اور ہماری پکنک بس یہ ہی رہ گئی کہ سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اور پاؤں بھگو کر دل کو تسلی دے دیتے. ویسے میرے دل کے کسی نہاں خانے میں یہ خواہش تو تھی کہ کہ بچپن کی طرح پھر سے سمندر کی لہروں سے کھیل سکوں. شائد یہ خواہش پوری ہونے کا وقت آ گیا تھا. ہم نے گاڑی سے ٹینٹ نکل کر لگایا کیوں کہ دھوپ بہت تیز تھی. پھر انجیلا نے سن برن سے بچنے کے لئے کریم دی. اس نے جوزف اور مارٹن کے جسم پر کریم لگائی اور پھر مارٹن نے انجیلا کے پورے جسم پر. میں سب کے سامنے شہریار کے جسم پر کریم لگانے سے ہچکچا رہی تھی. شہریار نے یہ بات بھانپ لی اور کریم میرے ہاتھ سے لے کر میرے جسم پر لگانے لگا. اف. شہریار کے ہاتھوں کا لمس میرے لئے اجنبی نہیں تھا لیکن ایسے سب کے سامنے کریم لگانے سے میں کسی حد تک گرم ہونے لگی تھی. خاص طور پر جب اس نے میرے مموں، پھدی اور کولہوں پر کریم کا مساج کیا تو میں نے بہت مشکل سے اپنے منہ سے نکلنے والی آہ کو روکا تھا. شہریار کے جسم پر میں نے کریم کا مساج کیا لیکن اس کے ساتھ عجیب مسلہ تھا. اس دن مارٹن اور انجیلا کے گھر میں بھی اس کا لنڈ مجھے سب کے سامنے ننگی دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور آج بھی وہی ہوا. میں نے جب لنڈ پر کریم لگانے کے لئے ہاتھ لگایا تو لنڈ ایسے تیزی سے کھڑا ہوا کہ میں خود حیران رہ گئی. مارٹن اور انجیلا بھی مسکراے بغیر نا رہ سکے. مسکراہٹ تک تو بات ٹھیک تھی شہریار بیچارہ شرمندہ سا ہو رہا تھا. میں نے جلدی جلدی کریم کا مساج کیااور ہم لوگ وہیں ٹینٹ کے نیچے لیٹ گئے. میں تو سمجھ رہی تھی کہ اب شائد سمندر میں نہایں گے لیکن اگر کریم لگانے کے بعد نہاتے تو کریم لگانے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا تھا. ایسے لیٹنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لیٹے لیٹے وقت ضایع کیا جائے بلکہ مجھے مارٹن اور انجیلا کی زبانی معلوم ہوا کہ اس طرح لیٹنے کا مقصد یہ ہے کہ جسم کو دھوپ اور موسم سے ہم آہنگ کیا جائے. وہ دونوں تو پہلے سے نیو ڈسٹ تھے لیکن میں چونکہ پہلی بار اس طرح سے دھوپ میں ننگی ہی تھی اس لئے میرے جسم پر دھوپ کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ تھا. دراصل جب جسم کو کپڑوں میں ملبوس رکھا جائے اور ایسا سالہاسال تک کیا جائے تو جسم اپنے آپ کو کپڑوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور ایسے میں اچانک ننگا پن جسم کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کئی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے. اس لئے احتیاتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے. خاص طور پر جسم کے وہ حصے جن پر ہم سری زندگی دھوپ لگنے ہی نہیں دیتے، ان حصوں کے لئے یہ ننگا پن زیادہ خطرناک ہے. ایک تو ایسے حصے پہلے ہی اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان کے لئے خصوسی احتیاط برتنی پڑتی ہے، اوپر سے اگر ان حصوں کو مسلسل بند رکھا جائے تو ان کی حساسیت میں اضافہ ہونا نا گزیر ہے. سورج کی شعاؤں میں وٹامن ڈی ہوتا ہے. یہ تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ وٹامن ڈی جسم کے تمام حصوں کو یکساں مقدار میں چاہئے ہوتا ہے، یہ سب کو معلوم نہیں ہے. کپڑے پہن کر دھوپ میں لیٹنے سے جسم کی وٹامن ڈی کی ضروریات پوری نہیں ہوتی. میں یہ نہیں کہ رہی کہ سب کو میری طرح ننگی ہو کر سہل سمندر پر جا کر سب کے سامنے ننگی لیٹنے سے ہی یہ ضروریات پوری ہوں گی. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جسم کی مناسب دیکھ بال کرنے کے لئے کچھ وقت نکال کر گھر میں ہی ننگے ہو دھوپ سینک لیا کریں. ہم نے جو ٹینٹ لگایا تھا اس کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ دھوپ بارہ راست جسموں پر نا پڑے بلکہ پہلے سایے میں لیٹ کر جسم کو ماحول سے ہم آہنگ کریں اور کچھ دیر بعد سمندر میں نہ کر جسم خشک کر کے ٹینٹ کے بغیر دھوپ سینکی جائے. یہ سب باتیں تو اپنی جگہ درست لیکن میرے لئے یہ بات اب تک حیرت کا سبب تھی کہ ہماری نظروں کے سامنے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں مرد عورت ننگے گھوم رہے تھے، نہا رہے تھے لیکن اب تک میں سواے شرجیل کے کسی مرد کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھی جس کا لنڈ کھڑا ہوا ہو. اپنے جسم پر اتنا اختیار دیکھ کر حیرانی ہوئی. انجیلا اور مارٹن ایک دوسرے سے چپک کر لیٹے تھے لیکن مجال ہے کہ مارٹن کا لنڈ ذرا بھی سخت ہوا ہو. شہریار کی بات البتہ الگ تھی. اس کا لنڈ تو سختی کی بلندیوں کو چھو رہا تھا. اب تو مجھے خود بھی شرمندگی ہونے لگی تھی کیوں کہ قریب سے گزرتے لوگوں کی آنکھوں میں اس نظارے کے لئے ناپسندیدگی واضح تھی.