ہنی مون (part 2)

PUBLIC BETA

Note: You can change font size, font face, and turn on dark mode by clicking the "A" icon tab in the Story Info Box.

You can temporarily switch back to a Classic Literotica® experience during our ongoing public Beta testing. Please consider leaving feedback on issues you experience or suggest improvements.

Click here

شہریار کا لنڈ اپنے جوبن پر تھا. یہ بتانا مشکل تھا کہ اس کے لنڈ میں اس بے پناہ سختی کی وجہ میرا ننگا جسم تھا یا پھر ہماری نظروں کے سامنے ساحل سمندر پر سیر کرتی، سمندر کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتی سینکڑوں ننگی حسینائیں اس کی وجہ تھیں. یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اپنی مشرقی بیوی کو پہلی بار اس طرح عوام الناس کے درمیان ننگی دیکھ کر بے قابو ہوا جا رہا تھا. وجہ جو بھی رہی ہو، اس وقت مسلہ یہ تھا کہ شہریار کا لنڈ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کیے جا رہا تھا اور زیادہ تر لوگوں کی نظروں میں اس کے لئے نا پسندیدگی کے تاثرات تھے. میں نے سوچا کہ بیشک یہ لوگ اپنے آپ کو قدرت کے قریب ترین کہتے ہیں اور یہ دعوا کرتے ہیں کہ ننگا پن قدرتی عمل ہے لیکن لنڈ کھڑا ہونے پر تیوری چڑھانا کیا اس بات کی دلیل نہیں تھی کہ ابھی اس طرز زندگی میں کسی حد تک دقیانوسیت موجود ہے. میرا مطلب یہ ہے کہ لنڈ کھڑا ہونا بھی تو ایک قدرتی عمل ہی ہے. اس پر برا کیوں منایا جائے؟ کیا لنڈ کھڑا ہونا اتنا ہی برا عمل ہے؟ اگر ہے تو پھر بعض لوگوں کے نزدیک تو ننگا پن بھی ایک اچھا عمل نہیں ہے.
میرے ذہن میں سوالات کی بھرمار کے باوجود پوچھنے کا یہ موقع نہیں تھا. میں شدت سے یہ چاہتی تھی کہ کوئی بھی ہماری طرف نا دیکھے اور سب اپنے کم سے کام رکھیں. میری سمجھ سے باہر تھا کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے. میں تو کچھ نہیں کر پائی لیکن انجیلا اور مارٹن سے مزید صبر نہیں ہوا. انجیلا اپنی جگہ سے اٹھی اور ایک تولیہ اٹھا کر شہریار کے لنڈ پر اس طرح سے رکھ دیا کہ لنڈ اس کے نیچے چھپ گیا. ابھار البتہ اب بھی نظر آ رہا تھا. تولیہ لنڈ پر ڈال کر انجیلا نے میری طرف دیکھا اور آنکھ ماری تھی. اس کا انداز ایسا تھا جیسے مجھے کسی کام کا اشارہ کر رہی ہو. فورا تو میں نہیں سمجھی لیکن تولیہ کے اوپر سے لنڈ کا ابھار دیکھ کر مجھے سمجھ آ گیا کہ انجیلا کا مطلب کیا تھا. دراصل مقصد تو یہ ہی تھا کہ شہریار کے لنڈ کا تناؤ ختم ہو جائے اور ایسا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لنڈ کو ریلیف دیا جائے. لنڈ کو ریلیف دینے کے جتنے بھی طریقے ہیں، ان سب پر تنہائی میں ہی عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے لیکن ہاتھوں سے لنڈ کو سہلا کر منی نکال دی جائے تو لنڈ کا تناؤ ختم ہو سکتا ہے. اب میں اچھی طرح سمجھ گی تھی کہ انجیلا نے تولیہ اس لئے لنڈ پر نہیں ڈالا تھا کہ لنڈ سب کی نظروں سے چھپ جائے بلکہ اس کا مقصد مجھے موقع فراہم کرنا تھا کہ میں تولیے کے نیچے سے لنڈ کی سختی ختم کرنے کی کوشش کر سکوں. میں نے ہاتھ بڑھا کر تولیے کے نیچے سے شہریار کا لنڈ پکڑ لیا. اف. فولاد کی طرح سخت تھا. لیکن تھا بلکل خشک. میرا دل کیا منہ میں لے لوں. اگر لے لیتی تو شائد مجھے اور شہریار دونوں کو یہاں سے نکال باہر کیا جاتا کیوں کہ غیر اخلاقی کام کوئی بھی برداشت نہیں کرتا. میں نے ہاتھ پر تھوک لگایا اور لنڈ کو اس ہاتھ سے مسلنے لگی. تھوک کی چکناہٹ سے ہاتھ لنڈ پر پھسلتا جا رہا تھا. شہریار کو تو جو مزہ آ رہا تھا وہ اپنی جگہ لیکن یہاں تو میں خود گرم ہوتی جا رہی تھی. میں نے ہینڈ جاب سے پہلے اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ اپنی پوزیشن اس طرح سیٹ کی تھی لوگوں کی نظر پڑے بھی تو انہیں یہ پتا نا چلے کہ تولیے کے نیچے کیا ہو رہا ہے. سکچول یعنی جنسی کاموں کو پبلک میں کرنا بیہودگی کے زمرے میں آتا ہے. ویسے یہاں بچے بھی موجود تھے اس لئے زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی.
میرا خیال تھا کہ جہاں سب لوگ بنا کپڑوں کے ننگے رہتے ہوں، وہاں صفائی کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا ہو گا کیوں کہ جب سمندر میں سب لوگ ننگے نہا رہے ہوں تو کسی کو کیا پتا کس نے سمندر کے پانی میں اپنے پیشاب کی ملاوٹ کی لیکن مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا یہ دیکھ کر کہ بہت سے لوگ پیشاب یا حوائج ضروریہ کی خاطر سمندر سے نکل کر ساحل پر بنے واشروم کا رخ کر رہے تھے. شہریار کا لنڈ میرے ہاتھوں کی مہارت اور تھوک کی چکناہٹ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکا. کوئی کچھ ہی کہے کہ انٹرنیٹ پر پورن فلمیں دیکھنے کے بہت نقصانات ہیں لیکن مجھے تو اب تک پورن کا فائدہ ہی ہوا تھا. ہینڈجاب، بلوجاب اور اورل سیکس اور بہت سی چیزیں میں نے پورن سے ہی سیکھی تھیں اور اب شادی کے بعد انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کر رہی تھی. شہریار کے لنڈ سے منی نکلی تو میں نے فورا اپنا ہاتھ نہیں کھینچا بلکہ مسلسل ایسے ہی مسلتی رہی. کچھ مزید جھٹکوں کے بعد شہریار کا لنڈ اپنی لمبائی کھونے لگا. میں نے تولئے سے لنڈ صاف کیا اور لنڈ پر سے تولیہ ہٹا دیا. اب لمبائی کھو کر بلکل چھوٹا سا ہو کر رہ گیا تھا. ویسے دیکھنے میں بہت کیوٹ لگ رہا تھا
شرجیل کے لنڈ کو تو جیسے سکون مل گیا ہو. ایسے دبکا تھا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے یہ لوہے کے راڈ کی طرح سخت تھا. تھوڑی دیر اس طرح سستانے کے بعد ہم سب نے نہانے کا ارادہ کیا اور ساحل کی جانب چلے. ننگے پیروں سے نرم نرم گیلی ریت پر چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن جو احساس پورے جسم پر سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں کا ہو رہا تھا وہ نا قابل بیان ہے. اتنی خوش گوار احساس تھا. ایسا لگتا تھا جیسے جسم کے تمام مسام کھل گئے ہوں. پانی کافی ٹھنڈا تھا. میرا تو سمندر میں نہانے کا بچپن کا ہی تجربہ تھا. بعد میں تو زیادہ سے زیادہ پر گیلے کرنے تک ہی نوبت آتی تھی. اسی لئے میں کھل کر نہانے سے گریز کر رہی تھی لیکن وہاں کا ماحول ایسا تھا کہ زیادہ دیر تک گریز کر نہ سکی. شہریار اور میں نے پانی میں خوب اٹھکھیلیاں کیں. ابھی ہم نہ ہی رہے تھے کہ انجیلا ایک گیند اٹھا لی اور بولی چلو واٹر بال کھیلیں. میں اور شہریار ایک طرف ہو گئے اور انجیلا اور مارٹن نے اپنی ٹیم بنا لی. میں پہلی بار کھل رہی تھی اس لئے ہم لوگ مسلسل ہار رہے تھے. میں نے کہا یہ غلط بات ہے. ہم دونوں نہ تجربہ کار ہیں اور اس طرح کھیلنے کا مزہ بھی نہیں آ رہا، پارٹنر بدلو. وہ دونوں فورن ماں گئے. میں اور مارٹن ایک ساتھ ہو گئے اور انجیلا اور شہریار ایک ساتھ. ٹیم بدلنے کا اور کوئی فائدہ ہوا یا نہیں، مجھے مارٹن کو قریب سے دیکھنے اور ابزرو کرنے کا کا موقع ضرور مل گیا. کھیل بہت دلچسپ تھا اور آہستہ آہستہ کھیل میں شدت آتی جا رہی تھی. میرا پہلا تجربہ ضرور تھا لیکن میں کوشش پوری کر رہی تھی. کوشش کا ہی نتیجہ تھا کہ گیند کو دوسری طرف پھینکنے کے چکر میں میں اس بات کا بھی لحاظ نہیں کر رہی تھی گیند مارٹن کے سامنے ہے یا میرے. اسی کا نتیجہ تھا کہ گیند کو ہاتھ مارنے کی کوشش میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور قریب تھا کہ پانی میں گر جاتی لیکن مارٹن نے ایک لمحہ ضایع کے بغیر مجھے تھام لیا اور اٹھا کر سیدھی کھڑی کر دیا. بمشکل کوئی دس سیکنڈ لگے ہونگے اس تمام کام میں لیکن اس کے ہاتھوں کا لمس اپنے جسم پر محسوس کر کے میرے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور میں بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹ گئی. میرا انداز ایسا تھا جیسے شرما گئی ہوں اور سچ بھی یہی تھا. میں مانتی ہوں میں مکمل ننگی تھی لیکن پھر بھی میرے اندر شرم باقی تھی. شائد یہ شرم مرنے پر ہی ختم ہو سکتی ہے ہم مشرقی لڑکیوں کے اندر سے. میری ادا پر مارٹن سمجھ گیا کہ میں ابھی اس حد تک بے تکلف نہیں ہی. ویسے بات بے تکلفی کی تھی بھی نہیں. اس نے بھی کوئی مجھے چھونے کی غرض سے تو ہاتھ نہیں لگایا تھا. اس کا مقصد تو مجھے گرنے سے بچانا تھا جس میں وہ کامیاب بھی رہا تھا. باجود اس کے، مارٹن نے مجھے سوری کہا. میں ابھی تک سکتے کی سی حالت میں تھی. شہریار نے میرے قریب آ کر مجھے اپنے گلے سے لگایا اور میرے جسم پر ہاتھ پھیرا آہستگی سے. تب کہیں جا کر میں نارمل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرا رویہ غیر مناسب تھا اور یہ کہ مجھے مارٹن کو سوری کہنا چاہئے لیکن اپنے اندر اتنی ہمت نہ پیدا کر پائی. اب مزید کھیلنے کا تو کسی کا موڈ نہیں تھا اس لئے ہم نے کھانا کھایا اور دھوپ سینکی. میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ احساس ندامت میں ڈوبتی چلی جا رہی تھی. باتوں میں بھی میں زیادہ حصہ نہ لے سکی. البتہ شہریار نے ان دونوں کو بور نہیں ہونے دیا اور خوب باتیں کیں. شام ہونے کا پتہ بھی نہ چلا اور ہم نے واپسی کی راہ لی. واپسی پر شہریار نے مارٹن اور انجیلا کو چاۓ کی دعوت دے ڈالی کہ میرے ہاتھ کی چاۓ بہت مزیدار ہوتی ہے. ہم نے ہوٹل میں اپنے کمرے میں چاۓ پی اور انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا. جب مارٹن نے مجھ سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی. یہ سب کے لئے غیر متوقعہ تھا. منہ سے ایک لفظ نہیں نکل پا رہا تھا میرے. مارٹن نے آہستگی سے میرے سر اور کمر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا. وہ لوگ تو اس کے بعد الودا کہ کر اپنے گھر چلے گئے لیکن شہریار کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی. نیند تو مجھے بھی نہیں آ رہی تھی لیکن شہریار کی آنکھوں میں مستی نمایاں تھی. میں سمجھ گئی کہ شوہر نامدار اب مجھے چودے بنا نہیں چھوڑیں گے
شہریار اور میری شادی کو آج تین ہفتے مکمل ہو گئے تھے. ان تین ہفتوں میں ہم نے متعدد مرتبہ سیکس کیا تھا لیکن آج مارٹن اور انجیلا کے ہمراہ سمندر کی سیر کے بعد شہریار کا جوش دیدنی تھا. جوش کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور مجھ پر پل پڑا. ایک لمحے کو تو میں گڑبڑا کر ہی رہ گئی تھی. اسکا رویہ ہی ایسا تھا. میں نے تو آج تک اس کو بہت رحم دل اور خیال رکھنے والا ہی پایا تھا. یہ وحشیانہ پن میرے لئے بلکل نئی چیز تھی لحظہ میری حیرانگی قدرتی تھی. میں اکثر سیکس کے دوران منہ سے ایسی آوازیں نکالا کرتی تھی جیسے پورن فلموں میں چدنے والی اداکارائیں نکالتی ہیں. اس سے مجھے بھی دوران سیکس ایسا لگتا تھا کے میں کوئی فلمی اداکارہ ہوں اور آوازیں سن کر شہریار کا جنوں بھی بڑھتا تھا لیکن آج کی بات نرالی تھی. آج کوئی اداکاری میرے روئے میں شامل نہ تھی. سو فیصد قدرتی رد عمل تھا. جب شہریار نے مجھے گود میں اٹھا کر بیڈ پر پٹخا تو میری چیخ نکل گئی. شہریار تو جیسے بھیڑیا بنا ہوا تھا. میں سہم کر بیڈ پر اس کی پہنچ سے دور ہوئی لیکن اس نے آگے بڑھ کر میری ٹانگیں کھینچ کر اپنے قریب کر لیا. میرے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھیں جو کہ ایک دم بلند ہو گیں جب اس نے میرا بلاوذ اتارنے کے بجاے کھینچ کر پھاڑ ہی دیا. مجھے اچھی طرح سے معلوم ہو گیا تھا کہ بات صرف بلاوز تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکے اور بھی بہت کچھ پھٹنے والا ہے. چوت تو میری پہلے ہی پھاڑ چکا تھا. کیا اب میری گانڈ کی باری ہے؟ یہ سوچ کر ہی میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے. کھڑا تو شہریار کا لنڈ بھی تھا جس کا اندازہ پینٹ کے اندر سے ہی ہو رہا تھا. میرا بلاوز پھاڑنے کے بعد زیادہ وقت ضایع کے بغیر اس نے میری پینٹ اتار دی اور خود بھی ننگا ہو گیا. لنڈ کی تنتناہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی. لنڈ کی ٹوپی ایسے سرخ انگارہ ہو رہی تھی جیسے خون سے بھر گئی ہو. اف. ایک لمحہ ضایع کے بغیر اس نے میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں اور ایک ہی دھکے میں پورا کا پورا لنڈ میری چوت میں داخل کر دیا اور جھٹکے مارنے لگا. ہر جھٹکے کے ساتھ میری بلند ہوتی چیخوں نے شاید اسکا جنوں کئی گنا بڑھا دیا تھا کیونکہ ہر جھٹکے کی شدت میں اضافہ ہوا چلا جا رہا تھا. شکر تھا کہ یہاں کمرے ساؤنڈ پروف تھے ورنہ تماشا ہی بن جاتا. شہریار نے اس بری طرح مجھے چودا کہ یہ تجربہ میری زندگی کے یادگار ترین تجربوں میں سے ایک بن گیا. آغاز میں میں جس قدر سہمی ہوئی تھی، بعد میں میں نے اتنا ہی انجواے کیا. یہ سچ ہے کہ شروع میں میری چیخوں کی وجہ درد ہی تھا. بیشک میں کنواری نہیں تھی لیکن کہدے کے لئے چوت کا تر ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے اور جب شہریار نے میری خشک چوت میں اپنا لوہے کے راڈ کی طرح سخت لنڈ پورا کا پورا ایک ہی جھٹکے میں گھسیڑ دیا تو درد تو ہونا ہی تھا نا. بہرحال، جب اتنی شدت سے چدائی ہو تو زیادہ دیر تک نہیں چلتی. وہی ہوا، پانچ منٹ کے اندر ہی شہریار ڈسچارج ہو گیا اور میرے ساتھ ہی بیڈ پر نڈھال ہو کر لیٹ گیا. کمرے میں مکمل خاموشی طاری تھی اور میں شہریار کے اس غصیلے موڈ کی وجہ سوچے چلے جا رہی تھی. کہیں شہریار کو اس بات پر تو غصہ نہیں آیا تھا کہ مارٹن نے مجھے گرنے سے بچانے کے لئے اپنے بازوں کا سہارا دیا تھا اور شہریار بیشک کتنا ہی کھلے ذہن کا مالک کیوں نا ہو، اپنی برہنہ مشرقی بیوی کو ایک برہنہ غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر حسد میں مبتلا تو ہو سکتا ہے نا. میرے لئے یہ سوچ ہی بہت تکلیف دہ تھی کیوں کہ میں چاہتی تھی کہ ہمارے رشتے کی بنیاد اعتماد ہو اور شک ہم سے کوسوں دور رہے.
شہریار سے ڈرتے ڈرتے میں نے اس وحشیانہ پن کی وجہ دریافت کی لیکن وہ مجھے بتانے سے جھجھک رہا تھا. میرے بار بار اصرار پر اس نے بتایا کہ جب مارٹن نے مجھے اپنے بازؤں میں تھاما تھا تو اسے برا لگنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا ہی اثر ہوا تھا یعنی مجھے مارٹن کی بانہوں میں دیکھ کر شہریار نے ہارنی فیل کیا تھا. شہریار کے منہ سے یہ سن کر میں حیران رہ گئی. میں نے تو جو بات سوچی تھی حقیقت اس کے بلکل الٹ ہی نکلی. حیرانی اپنی جگہ، لیکن شہریار کی سوچ نے میری ذہن میں خیالات کی نئی جہتیں جگا دی تھیں. اگر مجھے غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر شہریار کو اچھا لگتا ہے تو یہ سلسلہ آخر کہاں رکے گا؟ ابھی تو مارٹن کے عمل میں کوئی جنسی عنصر نہیں تھا لیکن اگر کوئی مجھے غلط نیت سے چھو ے تو کیا پھر بھی شہریار کو اچھا لگے لگا اور کیا وہ ایسا منظر دیکھ کر لطف اندوز ہو گا؟ ایسے ان گنت سوالات میرے ذہن میں منڈلانے لگے تھے. شہریار کا وحشیانہ پن تو لگتا تھا کہ ڈسچارج ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا. میرے چہرے پر گہری سوچ کے آثار دیکھ کر شائد وہ بھانپ گیا کہ میرے ذہن میں یقیناً اسکی بات سے شکوک و شبھات پیدا ہو گئے ہیں جنہیں دور کرنے کی غرض سے اس نے مجھے بتایا کہ یہ اس کی سیکس فنٹسی ہے لیکن وہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے میں ان کمفرٹیبل محسوس کروں اور نہ ہی کسی ایسے کام پر مجھے مجبور کرے گا جسے کرنا مجھے نہ پسند ہو.
اتنی محبت بھری باتیں سن کر میرا دل بھر آیا اور مجھے خوشی بھی ہی کہ میرا شوہر اتنا پیار کرنے والا ہے ورنہ پاکستانی مردوں کا حال تو میں دیکھ ہی چکی تھی. بہرحال، شوہر اتنا اچھا ہو تو پھر بیوی کے دل میں بھی محبت پیدا ہو ہی جاتی ہے خواہ مرضی کی شادی ہو یا نہیں. میری تو ویسے بھی پسند کی ہی شادی تھی. میں شہریار کی محبت کے سامنے پگھلی جا رہی تھی. لاکھ کوشش کی کہ خود پر قابو پا سکوں لیکن آنکھوں سے آنسو نکل ہی آے اور میں بے اختیار شہریار کے گلے لگ کر رونے لگی. شہریار مجھے تسلیاں دیے جا رہا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ میں اسکے گزشتہ روئے سے دلبرداشتہ ہوں جبکہ میں نے دل میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ میں شہریار کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کروں گی خواہ اسے پورا کرنے کے لئے مجھے کسی حد تک بھی کیوں نہ جانا پڑے.
ہمیں جرمنی میں آے ہوے تین ہفتے ہونے کو آ رہے تھے اور واپسی میں بس ٨ دن باقی تھے. ہم نے اس دوران زندگی کا خوب لطف اٹھایا. بازاروں، شاپنگ مالز کی سیر کی. پارکس کی سیر کی. تاریخی مقامات دیکھے اور بہترین ریسٹورنٹ سے کھانے کھاے. ان سب چیزوں کے باوجود مجھے سب سے زیادہ مزہ مارٹن انجیلا اور شہریار کے ہمراہ ساحل سمندر کی سیر کرنے پر آیا تھا. بنا کپڑوں کے سمندر کے پانی میں نہانا. دھوپ میں لیٹنا اور کسی کی نظروں کا مرکز نہ ہونا. سب لوگوں کا ایسے برتاؤ کرنا جیسے ننگا پن بلکل قدرتی چیز ہے. ان سب باتوں نے میرے نظریات بدل کر رکھ دیے تھے اور میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب مجھے کپڑوں میں ایک عجیب سی الجھن ہوتی ہے. ایک احساس سا رہتا ہے بے چینی کا جب تک کپڑے اتار کر ننگی نہ ہو جاؤں. سچی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ شہریار مجھ سے پہلے سے یہ طرز زندگی اپنا چکا تھا لیکن میں اس طرز زندگی سے ایسی مانوس ہوئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ میں ہمیشہ سے ہی ننگی رہتی چلی آ رہی ہوں اور شہریار اس میں نیا نیا داخل ہوا ہے.
بہرحال، ہم نے یہ آٹھ دن بھی گھومنے پھرنے میں گزار دیے. روانگی سے پہلے آج ہماری آخری رات تھی جرمنی میں. میں نے شہریار سے کہا کیوں نہ ہم جانے سے پہلے ایک بار مارٹن اور انجیلا سے ملتے چلیں. اس نے بھی میری بات کی تائد کی. وہ اطلاع دینا چاہتا تھا لیکن میں نے منع کر دیا اور تجویز دی کہ سرپرائز دیتے ہیں. شہریار فورن مان گیا.
ہم دونوں اوبر کروا کر ان کے گھر پہنچے. راستے سے ایک شراب کی بوتل لینا نہیں بھولے تھے. یہ کسی کے گھر جانے کے آداب میں شامل تھا کہ کچھ نہ کچھ لے کر جایا جائے. پاکستان میں جس طرح مٹھائی لے کر جاتے ہیں. یہاں تو مٹھائی کا رواج نہیں. شراب البتہ خوب پسند کی جاتی ہے. رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا. گلی میں سناٹا تھا. معلومات کی غرض سے صرف اتنا بتاتی چلوں کہ وہاں رہائشی علاقے کمرشل علاقوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اور کمرشل علاقوں میں جہاں زندگی ساری رات رواں دواں رہتی ہے، وہیں رہائشی علاقوں میں رات کے ٩ بجے تک ہی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے.
شہریار بیل بجانے ہی لگا تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا. وہ حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگا. میں نے اسکے کان میں کہا کہ بیل بجانے سے پہلے کپڑے اتار لیں تو میزبانوں کو ایک اور خوشگوار سرپرائز دے سکتے ہیں. شہریار میری بیباکی پر یقیناً فخر محسوس کر رہا ہو گا. ہم دونوں نے وہیں کھڑے کھڑے کپڑے اتارے جو میں نے اپنے پرس میں رکھ لئے. شہریار نے ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل تھام رکھی تھی اس لئے دوسرے ہاتھ سے گھنٹی بجائی. دروازے کے باہر انٹرکام پر کنفرمیشن کے بعد ہی مارٹن نے دروازہ کھولا تھا اور دروازہ کھولنے پر اس کے چہرے کے تاثرات دیدنی تھے. ہمارے آنے کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی. خوشی ہی تھی کہ اس نے بجاے مصافحے کہ آگے بڑھ کر شہریار کو گلے لگا لیا. اس سے گلے ملنے کے بعد مارٹن نے بس نہیں کی بلکہ مجھ سے بھی بغل گیر ہو گیا. میں اس سے ہاتھ تو ملا چکی تھی پہلے بھی اور ساحل پر اس نے بازوں کا سہارا بھی دیا تھا مجھے لیکن تب بھی میرے اور اس کے جسم میں کسی قدر فاصلہ برقرار تھا اور صرف گنتی کے چند اعضاء ہی ایک دوسرے سے چھو پاے تھے. اب جب مارٹن نے مجھے گلے لگایا تو میرے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی. اگرچہ یہ صرف چار پانچ سیکنڈز کی بات ہی تھی لیکن ان چار پانچ سیکنڈز میں میرا جسم مارٹن کے جسم سے مکمل چھو گیا تھا. میں نے تو آج تک کسی مرد سے کپڑے پہن کر گلے نہیں ملی تھی، اب جب ننگی ہو کر گلے ملی تو جسم میں آگ لگ گیی. میرا منہ اس کے کندھے پر ٹچ ہوا تھا. پستان اس کے سینے سے اور لنڈ میرے پیٹ پر ناف کی جگہ سے ٹچ ہوا تھا اسکا قد مجھ سے لمبا تھا اس لئے. میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو کنٹرول کیا تھا. گلے ملنے پر مارٹن نے میری کمر پر ہاتھ رکھے تھے اور میں نے اسکی کمر پر. ابھی مارٹن مجھ سے گلے مل کر پیچھے ہٹا ہی تھا کہ انجیلا بھی آ گئی اور ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد ہم دونوں سے باری باری گلے ملی. سچ کہوں تو پہلی بار دونوں جنس کے لوگوں سے برھنہ حالت میں گلے ملنا بھی ایک منفرد تجربہ تھا. مارٹن اور انجیلا کے تاثرات تو ایسے تھے کہ جیسے یہ روٹین کی بات ہے لیکن میرے جنسی جذبات مکمل بیدار ہو گئے تھے. انہوں نے شراب کی بوتل پر شکریہ ادا کیا اور ہم لوگ ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھے. بچے سو چکے تھے.
کچھ دیر ہم نے گپیں لگائیں. انجیلا شراب کی بوتل اور گلاس اٹھا لائی تھی. شائد اس لمحے ہم سب ہی جذبات میں اتنا آگے نکل گئے تھے کہ سب کچھ بھول گئے تھے. نہ تو انجیلا کو اس بات کا ہوش تھا کہ ہم شراب نہیں پیتے اور نہ ہی ہم نے منع کیا جب اس نے ہمارے سامنے گلاس لا کر رکھے. وہ دونوں تو شراب پینے کے عادی تھے اور شہریار بھی میرے سامنے اعتراف کر چکا تھا کہ وہ بھی کبھی کبھار ایک آدھ گلاس شراب پی ہی لیتا ہے مہینے بھر میں لیکن میں نے آج تک شراب نہیں پی تھی. یہ بات نہیں کہ میں کوئی بہت شریف لڑکی تھی. جس قسم کی پارٹیوں میں میں جاتی رہی تھی ان میں شراب کا آزادانہ استعمال ہوتا تھا لیکن ماڈرن ہونے کے باوجود میں نے شراب سے اس لئے احتراز برتا تھا کہ شراب کے نشے میں کہیں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس سے میرے والدین کی عزت پر کوئی حرف آے. پہلی بار شراب کی چسکی لی. زائقہ عجیب لگا لیکن میں آہستہ آہستہ چسکیاں لیتی رہی. باتوں باتوں میں پتہ بھی نہ چلا اور میں پورا گلاس پی گئی. عجیب سا احساس تھا.میں نے چرس کا نشہ کر رکھا تھا پہلے کئی بار لیکن یہ اس سے مختلف تھا. تھوڑی ہی دیر میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں آسمان پر اڑ رہی ہوں. اب میں باتوں میں حصہ تو لے رہی تھی لیکن باقی لوگوں کی باتوں پر فوکس نہیں کر پا رہی تھی زیادہ دیر تک. ایسا لگتا تھا جیسے شارٹ ٹرم میموری پر شراب کا اثر زیادہ ہوا تھا. مجھے شراب کے اثرات محسوس تو ہو رہے تھے لیکن میں نے بظاھر کسی کو یہ پتہ نہیں لگنے دیا تھا کہ میں کچھ کچھ بہکنے لگی ہوں. تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد انجیلا نے ایک گیم کی تجویز دی جس میں شراب کی خالی بوتل میز پر لٹا کر گھمانی ہوتی تھی اور گھومتے ہوے بوتل جب رکتی تھی تو جس کی طرف اسکا رخ ہوتا تھا اسے گھمانے والے کی مرضی کا کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا تھا. مزے کی بات یہ تھی کہ کوئی حد نہیں تھی اس میں یعنی کوئی بھی کام کہا جا سکتا تھا. میں نے اس گیم کو فلموں میں تو دیکھا تھا لیکن حقیقی زندگی میں پہلی بار کھیلنے لگی تھی.
گیم کا نام تھا سپن دی باٹل. بؤتل کو درمیان میں میز پر رکھ کر گھمایا جاتا تھا اور کھیلنے والے میز کے گرد بیٹھ جاتے تھے. میں نے فلموں میں جب جب یہ گیم دیکھی تھی ان میں مختلف اصول تھے. ایک اصول یہ تھا کہ جو بؤتل کو گھماۓ گا وہ اس شخص کو بوسہ دے گا جس کی طرف بؤتل کا رخ ہو گا رکنے پر. ایک دوسرا ورژن بھی اس گیم کا تھا جس میں گھمانے والے سے قطع نظر بؤتل کے رکنے پر دیکھا جائے گا کہ بؤتل کا منہ اور پچھلا حصہ کن دو افراد کی جانب ہیں. ان دونوں افراد کو بوسہ کرنا ہو گا سب کے سامنے. دراصل اس گیم کے کوئی لکھے پڑھے اصول تھے ہی نہیں جس کا جو دل کرتا تھا، گیم کو اپنی پسند کے مطابق موڑ لیا جاتا تھا. جب انجیلا نے تجویز پیش کی تو میرے ذہن میں یہ تھا یا تو بؤتل کا منہ جس کی طرف ہو گا اسے اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی واقعے سنانا ہو گا جس پر اسے شرمندگی ہو یا پھر باقی لوگ اسے کوئی ایسا کام کہیں گے جو خطرناک ہو سکتا ہے مصلاً بنا کپڑوں کے باہر کا چکر لگانا یا دکان سے کچھ لے کر آنا. میرے ذہن میں کنفیوژن تھی مگر جب مارٹن نے گیم کا آغاز کیا اور بوتل کا رخ انجیلا کی جانب آیا تو میری کنفیوژن دور ہو گئی کیوں کہ ان دونوں نے فورن ایک دوسرے کو بوسہ دیا ہونٹوں پر. اب مجھے سمجھ آنے لگی تھی کہ اس کھیل کے اصول کیا ہیں لیکن میں نے پھر بھی اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے ان سے پوچھ لیا کہ اگر میری جانب بوتل کا رخ آیا اور میں بوسہ نہ دینا چاہوں سب کے سامنے تو کیا ہو گا؟ جواب ملا کہ پھر صورتحال سنگین ہوتی چلی جائے گی. یہ تو بنیادی اصول ہے اس کھیل کا کہ دس سیکنڈز کے اندر اندر بوسہ لینا ہوتا ہے. اگر دس سیکنڈز میں بوسہ نہ لے سکیں تو دونوں کو اگلے دس سیکنڈز کے اندر فرنچ کس کرنی پڑے گی. وہ بھی نہ کی تو پھر کھیل میں شریک باقی لوگ فیصلہ کریں گے کہ ان دونوں کو کیا کام کرنے پر مجبور کرنا ہے اب.
کچھ شراب کا نشہ تھا اور کچھ میں پہلے ان دونوں سے گلے ملنے کی وجہ سے ہارنی تھی. جب مارٹن اور انجیلا نے ہمارے سامنے ایک دوسرے کو بوسہ دیا تو میرے جنسی جذبات مزید مشتعل ہو گئے. نپلز بھی کھڑے تھے. شراب کے نشے کا یہ اثر بھی تھا کہ میں معمول سے زیادہ بولے چلے جا رہی تھی. کھیل میں خوب حصّہ لے رہی تھی. اگلی باری انجیلا کی تھی. اس نے بوتل گھمائی تو رخ شہریار کی طرف آیا. میں سمجھی تھی کہ شہریار جھجھکے گا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شہریار اور انجیلا دونوں ہی فٹا فٹ ایک دوسرے کو بوسہ دینے کے لئے لپکے. انجیلا میرے بائیں جانب بیٹھی تھی اور شہریار میرے دائیں جانب. جب انہوں نے ایک دوسرے کو میز کے اوپر سے لپک کر ہونٹوں پر بوسہ دیا تو وہ میرے بلکل سامنے تھے اور میرے چہرے سے بہت قریب. میری نظروں کے اتنے قریب میرے شوہر کے ہونٹ انجیلا کے گلابی ہونٹوں سے ٹکراے. دونوں نے ہی پچ کی آواز نکالی جیسے چومتے وقت نکالتے ہیں. اب شہریار کی باری تھی گھمانے کی. اس نے بوتل گھمائی اور شو مئی قسمت کہ بوتل کا رخ پھر سے انجیلا کی طرف آ گیا. اف. پھر سے وہی سین چلا. مجھے غصہ بھی آ رہا تھا کہ میری طرف کیوں نہیں آ رہا بوتل کا منہ. غصے میں میں نے گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا اور گلاس کے پیندے میں جو تھوڑی سی شراب بچی تھی وہ بھی اپنے حلق میں انڈیل لی. انجیلا کی باری تھی. اس نے گھمائی تو رخ پھر شہریار کی جانب. تیسری بار مسلسل انہوں نے بوسہ لیا. سچی بات ہے کہ مجھے اب برا محسوس ہونے لگا تھا. اتنی آزاد خیال ہونے کے باوجود مجھے اب حسد محسوس ہو رہا تھا. میرے شوہر کو مسلسل ہونٹوں پر بوسہ دے جا رہی تھی اور وہ بھی میرے سامنے. جب چوتھی بار بھی بوتل کا رخ انجیلا کی جانب آیا اور شہریار اور انجیلا نے میرے سامنے چوتھی بار ایک دوسرے کا ہونٹوں پر بوسہ لیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا.